Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
(اللہ چاہتا ہے کہ بیان کرے تمہارے لیے اور ہدایت دے تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی جو تم سے پہلے تھے اور تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے
یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَـکُمْ وَیَھْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِـکُمْ وَیَتُوْبَ عَلَیْـکُمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (اللہ چاہتا ہے کہ بیان کرے تمہارے لیے اور ہدایت دے تمہیں ان لوگوں کے طریقوں کی جو تم سے پہلے تھے اور تم پر رحمت کی نگاہ کرے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے) (النسآء : 26) خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی امتِ مسلمہ کے نام سے جو نئی امت تشکیل پارہی ہے اس کے حوالے سے سورة بقرۃ میں اور پھر سورة نساء میں یہاں تک معاشرت، تمدن اور تہذیب کی تشکیل و تعمیر کے لیے ہدایات جاری تھیں کہ درمیان میں یہ تین آیتیں ایک خاص مقصد کے لیے نازل کی گئیں اور اس کے بعد پھر اصلاحی ہدایات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ان تین آیتوں میں سے سب سے پہلی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ امت اسلامیہ کا ظہور اس طرح نہیں جس طرح کبھی بین الاقوامی حالات کے الٹ پھیر سے اچانک نئی قوم وجود میں آجاتی ہے۔ اگرچہ اس کے پیچھے بھی قضاوقدر کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس کا وجودحالات کے نتیجے سے زیادہ کسی بڑے مقصد کا حامل نہیں ہوتا۔ وہ باقی قوموں کی بھیڑ میں ایک اضافے کے طور پر اپنا وجود باقی رکھتی ہے اور انھیں جیسے طو راطوار اختیار کرکے زندگی گزارتی رہتی ہے۔ لیکن امت مسلمہ کا وجودحالات کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فیصلہ ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی زمین فساد سے بھر گئی ہے، بروبحر میں فساد پھیل گیا ہے، زمین کا کوئی حصہ اس فساد سے محفوظ نہیں۔ چناچہ اس نے فیصلہ کیا کہ ایک نبی مبعوث فرماکر ایک امت اٹھائی جائے اور اس کے سامنے زندگی کے وہ تمام طریقے واضح کیے جائیں اور ان تمام اچھائیوں کی اسے ہدایت دی جائے جن پر چل کر اپنے اپنے وقتوں میں اللہ کے نیک بندوں نے فلاح پائی ہے، اللہ کی زمین خیروصلاح سے معمو رہوئی ہے، زمین پر بسنے والوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور لوگوں نے اپنے فکر وعمل سے اللہ کی رضا کو دعوت دی ہے۔ آج شدید ضرورت ہے کہ زمین کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے دوبارہ ان پر زندگی کے وہ طور اطوارکھولے جائیں اور ظاہر ہے اتنا بڑا کام اللہ کے فیصلے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو یُرِیْدُ اللّٰہُُسے بیان فرمایا ہے اور اس کی تاکید کے لیے یُبَیِّنَ پر ” لام “ کا اضافہ کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ارادہ الٰہی دنیا کی طرف متوجہ ہوچکا ہے اور وہ اہل زمین سے بھلائی کا فیصلہ کرچکا ہے اور اس کے لیے امت مسلمہ کو چن لیا گیا ہے لیکن وہ افراد کا مجموعہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اعمال و کردار میں باقی افراد انسانی کی طرح نہیں ہوگی اس کا وجود انسانوں کے لیے بہار کا جھونکا بھی ہوگا لیکن مفسدین کے لیے ڈاکٹر کا خنجر بھی کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کو بروئے کار لائیں گے۔ اس آیت میں ایک طرف تو مخالفین کو تنبیہ کرنا ہے کہ تم اس امت کو غریب مسلمانوں کا گروہ سمجھ کر ان سے معاملہ نہ کرنا بلکہ ان کی مخالفت کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا کہ ان کے پیچھے اللہ کی قوت کارفرما ہے۔ یہ اس کے ارادے کی تکمیل کے لیے اٹھے ہیں، ان کے سر پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے اس لیے انھیں کسی طور شکست نہیں دی جاسکتی اور مسلمانوں کو یہ حوصلہ دینا ہے کہ تمہیں جو اصلاحی ہدایات دی جارہی ہیں یہ صرف تمہارے لیے نہیں بلکہ یہ ہدایات ہر دور میں ان لوگوں کو دی گئی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کامورد بنایا ہے اور اپنے بندوں کی اصلاح کے لیے چنا ہے اور پھر ان کے واسطے سے ارادہ الٰہی کی تکمیل ہوئی ہے۔ اس لیے تمہیں قدم قدم پر مخالفتوں سے ضرور واسطہ پڑے گا لیکن تمہیں یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ تم اللہ کے سپاہی ہو جنھیں ایک عظیم مقصد کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ جب کسی کو کسی عظیم مقصد کے لیے اٹھاتا ہے تو اسے جس طرح اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اسی طرح ان کی آزمائش کے لیے مصائب سے بھی گزارتا ہے کیونکہ ؎ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ قف وَیُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا (اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم پر رحمت کی نگاہ فرمائے اور وہ لوگ جو اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تم پھر جاؤ راہ سے بہت دور) (النسآء : 27) مسلمانوں کے مقابل کون اور کیسے ؟ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں سے یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم جس جانگسل کشمکش سے گزر رہے ہو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تم سے جو رحمت کا سلوک فرمانا چاہتا ہے تمہیں اس کامورد بنادیا جائے گا اور اس کی رحمتیں تم پر جھوم جھوم کر اتریں گی۔ لیکن یہ کبھی نہ بھولو کہ اس کشمکش میں جن لوگوں سے تمہیں واسطہ ہے وہ کیسے لوگ ہیں اور ان کے عزائم کیا ہیں ؟ ایک طرف تو ان میں قدامت پرست جہلاء ہیں۔ جن کے لیے اپنے آبائواجداد کی ہر بات جسے وہ مذہب کا رنگ دے چکے ہیں اور ہر رسم جو روایت کا درجہ پاچکی ہے کو زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ جب کبھی بھی جہالت کی ان باتوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مذہب پر حملہ کیا جارہا ہے چناچہ وہ پوری قوت سے مقابلے کے لیے اٹھتے ہیں۔ انھوں نے جب دیکھا کہ میراث میں لڑکیوں کو حصہ دیا جارہا ہے، بیوہ عورت کو سسرال کی غلامی سے نکلنے کا حق مل رہا ہے، دو بہنوں کے ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کو ناجائز قرار دیا جارہا ہے، متبنٰی کو وراثت سے محروم کیا جارہا ہے، اسی طرح کی دوسری اصلاحات سے انھوں نے محسوس کیا کہ ہم آج تک اپنی معاشرت کو جن بنیادوں پر قائم کیے ہوئے تھے ان میں سے ایک ایک کو ڈھایا جارہا ہے اور مزید یہ کہ ان میں سے بعض چیزوں کے نتائج کا حوالہ دے دے کر لوگوں میں اشتعال بھی پیدا کیا جارہا ہے، مثلاً جس طرح کے نکاح کو اسلام نے حرام ٹھہرایا ہے اور پہلے اس پر عمل ہوتا تھا اور اس کے نتیجے میں اولاد بھی ہوتی تھی تو یہ کہہ کر آگ لگانے کی کوشش کی گئی کہ اگر اس طرح کے رشتے ناجائز تھے تو ان کی اولاد بھی ناجائز ہوگی اور انھیں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آج معاشرے کے جانے پہچانے لوگ ہیں تو ان کا کیا بنے گا ؟ جب لوگ یہ کہیں گے کہ ان کا تو نسب ہی ثابت نہیں۔ دوسری طرف یہودی تھے جنھوں نے صدیوں کی موشگافیوں سے ایک ایسی خانہ ساز شریعت ایجاد کرلی تھی جس نے اصل شریعت کو بیکار کرکے رکھ دیا تھا اور ایسے مصنوعی قوانین پیدا کرلیے تھے جن کے نتیجے میں بکثرت حلال چیزیں حرام کردی گئی تھیں اور حرام چیزیں حلال کردی گئی تھیں۔ بہت سارے توہمات کو قانونِ خداوندی میں داخل کرلیا تھا، اب جب کہ ان کو اسلام کی سیدھی سادی شریعت سے واسطہ پڑاجو اللہ کا آخری نبی اور قرآن پیش کررہا تھا تو وہ ہر بات پر مشتعل ہوتے اور ایک ایک چیز پر سو سو اعتراضات کرتے تھے۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ یا تو قرآن ان کے فقہا کے تمام اجتہادات اور ان کے اسلاف کے سارے اوہام و خرافات کو شریعتِ الٰہی قرار دے ورنہ یہ ہرگز کتاب الٰہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہودیوں کے ہاں دستور تھا کہ ایام ماہواری میں ہندوئوں کی طرح عورت کو بالکل اچھوت سمجھتے تھے۔ نہ اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھاناکھاتے نہ اس کے ہاتھ سے پانی پیتے، نہ اس کے ساتھ فرش پر بیٹھتے بلکہ اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھو جانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔ ایامِ مخصوص میں عورت ایک عضو معطل بن کر رہ جاتی یا گھر میں اس کی حیثیت ایک اچھوت کی طرح ہوتی۔ یہی رواج یہودیوں کے اثر سے مدینہ کے انصار میں بھی چل پڑا تھا۔ جب رسول کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ نے قرآن کریم کے حوالہ سے بتایا کہ ایام مخصوص میں عورت سے صرف مباشرت ناجائز ہے باقی تمام تعلقات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، عورت عبادت نہیں کرسکتی باقی بھلائی کے ہر کام میں شریک ہوسکتی ہے۔ اس پر یہودیوں میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور انھوں نے لوگوں کو یہ کہہ کرمشتعل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک سازش ہے جو پہلے کے ہر معاشرتی سسٹم کو تباہ کردینا چاہتا ہے اور ہر حلال کو حرام اور ہر حرام کو حلال میں بدل دینا چاہتا ہے۔ تیسری طرف منافقین اور معاشرے کے وہ اوباش لوگ تھے جو اسلام کی معاشرتی اصلاحات کو اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف ایک چیلنج سمجھتے تھے وہ دیکھ رہے تھے کہ اباحیت اور فسق وفجور کا ایک ایک دروازہ بند کیا جارہا ہے اور عیاشی کے جتنے راستے ہیں ان پر پہرے لگائے جارہے ہیں۔ انسان کو نفسانیت کے چنگل اور خواہشات کی غلامی سے نکال کر خودآگاہی اور خدا آگاہی کی فضا مہیا کی جارہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فسق وفجور کی تمام آزادیاں ختم ہوجائیں گی ان کے لیے یہ بات کسی طور بھی گوارا نہ تھی کہ محرم اور نامحرم کے شعور سے ہماری آزادیوں کو محدود کردیا جائے اور عورت کو اپنے حقوق کا شعور دے کر عورت پر ظلم وتعدی کے راستے بند کردئیے جائیں۔ چناچہ انھوں نے ان اصلاحات کے مقابلے میں اس طرح پروپیگنڈا کیا کہ گویا یہ عورت کی آزادی محدود کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اس کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ انسان نے علم و ہنر میں کتنی ترقی کی ہے لیکن اس کی خواہشِ نفس جس طرح دور جاہلیت میں اس پر حکمران تھی اسی طرح آج بھی حکمران ہے۔ مغرب میں پوری قوت سے محرم اور نامحرم کا فرق مٹایا جارہا ہے، نکاح کے بندھن کو توڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عورت کے لیے سر پر سکارف باندھ لینا بھی ان کے ہیجانِ نفس کے لیے ناگوار ہے۔ ساری دنیا کو رواداری اور آزادی کا درس دینے والے عورت کے سر پر کپڑے کا ایک چیتھڑا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی بےحیائی پر کوئی تنقید کرے تو رجعت پسندی ہے اور وہ شرم وحیا کی ہر قدر کو مٹادیں اور مکارمِ اخلاق کی معمولی باتوں کو بھی برداشت نہ کریں تو یہ تہذیب ہے۔ تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًاسے ایک اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جاہلیتِ قدیمہ ہو یا جاہلیتِ جدیدہ ہر دور کے نفسانی شہوات کے پیروکار اور سفلی جذبات کے پرستار صرف یہی نہیں چاہتے کہ ان کے لیے بےحیائی کے راستے کھلے رہیں بلکہ ان کا اصل زور اس بات پر ہے کہ جو لوگ ان کے حیوانی اور شہوانی رویے کو پسند نہیں کرتے اور اس کے مخالف ہیں انھیں بھی کسی طرح اس حد تک گمراہ کردیں کہ وہ بھی یہی رویہ اپنانے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ لوگ اپنی بربادی پر قناعت کرنے والے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کے عزائم یہ ہیں : ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے آنحضرت ﷺ کے ہمعصر جاہلیت کے پرستار بھی اسی ڈگر پر چل رہے تھے اور آج کی جاہلیت کے علمبردار بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔ انھوں نے تہذیب و ثقافت کے نام پر جس طرح انسان کو حیوان بنایا اور شرم وحیا کا ایک ایک ٹان کہ اس طرح توڑا کہ ان کے اندر سے شرافت، نجابت اور غیرت وحمیت کے تصورات یارخصت ہوگئے یا اپنے معنی کھوگئے، جس کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام تباہی کے کنارے جالگا۔ میاں بیوی کا رشتہ ایسا کچا دھاگابنا کہ جس کے ٹوٹنے کی آواز بھی نہیں آتی۔ وفاومحبت کے دعوے قصہ پارینہ بن گئے باربار کی بےوفائی کے جھٹکے خودکشی کی صورت میں ڈھلنے لگے اور مغرب کی خوشحال آبادی لاکھوں کی تعداد میں خودکشی کی وارداتیں کرنے لگی۔ اولاد اور والدین کا رشتہ جوانیوں کی طغیانیوں میں بہہ گیا۔ اپناگھراجاڑلینے کے بعد اب مغرب کی پوری کوشش ہے کہ مشرق کو بھی اس انجام سے دوچار کیا جائے۔ وہ اپنی تعلیم، تہذیب اور ثقافت کے زور سے مشرق کو بھی اپنے رنگ میں ڈبو دینے پر تل گئے ہیں۔ اب تو یہاں تک اندھیر ہوگیا ہے کہ جو ملک اپنی اخلاقی قدریں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ان پر عجیب و غریب سیاسی اور معاشی پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ ان کے حکمرانوں کو اپنے نصاب تعلیم سے ہر ایسی چیز نکالنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو اخلاق کا جذبہ ابھارتی اور اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتی ہے۔ فرانس جیسا ملک جو اپنے آپ کو جمہوریت کا منشا اور معاد سمجھتا ہے۔ وہاں ہر طرح سے جمہوری آزادیاں کارفرما ہیں لیکن سکولوں کی بچیاں اپنی مرضی سے سر پر سکارف نہیں باندھ سکتیں۔ غور کیجیے ! سکارف کپڑے کا ایک مختصر ساٹکڑا ہے جسے سرڈھانپنے یابال سنبھالنے کے لیے باندھ لیا جاتا ہے، آخر فرانس کی قوم یا اس کے معاشرے پر اس کا کیا اثر پڑسکتا ہے ؟ لیکن عدالت کا غیرجانبدار ادارہ بھی اس معاملے میں حکومت کا شریک کار ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھیں کپڑے کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا اصل میں اس شرم وحیا کی یاد دلاتا ہے جو ان کی زندگیوں سے نکل چکی ہے اور وہ ہر دوسرے شخص یا دوسری قوم کے افراد میں سے نکال دینے پر تل گئے ہیں اور ان کا یہ پروپیگنڈا یا ان کا سیاسی اثر جس میں وہ پورے مغرب کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس قدر موثر ہے کہ ان کے نقوش قدم پر چلنے والی مشرقی یا مسلمان حکومتیں بھی بےدینی اور بےحیائی کے ہر کام میں روادار ہیں۔ لیکن شرم وحیا کی عکاس کوئی چیز بھی انھیں بری طرح پریشان کردیتی ہے۔ ترکی کی پارلیمنٹ میں ایک مسلمان خاتون جو ان کی نیشنل اسمبلی کی منتخب رکن ہے سکارف باندھ کرچلی جاتی ہے تو حکومت کے وزیراعظم، صدر اور نیشنل اسمبلی کے سپیکر تک کے حقوق مجروح ہوجاتے ہیں اور وہ اس عفت مآب خاتون کی رکنیت ختم کردیتے ہیں کیونکہ اس نے سر پر یہ خطرناک کپڑا کیوں باندھا جس سے شرم وحیا کی بو آتی ہے۔ جس سے عفت اور پاکدامنی جنم لے سکتی ہے، جو کبھی حجاب اور نقاب تک کا مسئلہ پیدا کرسکتی ہے۔ اندازہ فرمائیے ! اسلام اور اسلامی احکام جو کبھی ابوجہل جیسے لوگوں کو پریشان کرتے تھے آج وہ اہل مغرب اور ان کے راستوں پر چلنے والے مستغربین کو پریشان کرتے ہیں اور یہی اتباعِ شہوات کرنے والوں کی اصل منزل ہے۔ یُرِیْدُاللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ ج وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے) (النسآء : 28) ایک اہم حقیقت اس آیت کریمہ میں جس حقیقت کو منکشف فرمایا گیا ہے وہ ایک طرف تو سراسر اللہ کا احسان ہے اور دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی خودساختہ غلط فہمیوں کا علاج بھی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت انسان جس طرح سوچتا تھا آج کا دانشور بھی اسی طرح سوچتا ہے۔ وہ بھی اللہ کی شریعت کو اپنی آزاد زندگی کے لیے اک پابندی سمجھتا تھا اور آج کا دانشور بھی یہ سمجھتا ہے کہ شریعت کے احکام ایسی زنجیریں ہیں جن کو پہن لینے کے بعدآدمی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔ اس کی خواہشات محدود ہوجاتی ہیں ایک آسودہ زندگی اس کے لیے خواب و خیال ہو کر رہ جاتی ہے وہ سوائے اس کے کہ ابلہ مسجد بن کے رہے زندگی کے کسی کارآمد ادارے کے قابل نہیں رہ جاتا۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ شریعت انسان کے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے آئی ہے، اس کی زنجیریں کاٹنے کے لیے آئی ہے، اس کے طوق اتارنے کے لیے آئی ہے، اس کی ذہنی پریشانیوں کو دو رکنے کے لیے آئی ہے، اس کی الجھنوں کو ختم کرنے کے لیے آئی ہے۔ بظاہر دنیوی زندگی جو اتباعِ شہوات کا نام ہے اس میں بڑی چکاچوند دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چہرے میک اپ سے بیشک روشن بنائے دئیے جاتے ہیں، لیکن کاش ! کوئی اندر جھانک کر دیکھے کہ کس قدر اندھیرا اور کس قدر ویرانی ہے۔ مسجدوں کے لوگ جیسے روشن چہرے رکھتے ہیں اس سے زیادہ روشن دل رکھتے ہیں۔ لیکن بظاہر مہذب اور مثقف کہلانے والے مغموم اور بجھے ہوئے دلوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پریوں سمجھئے کہ ایک آدمی جس کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہیں کبھی اس کی زندگی کو دیکھئے کہ اسے ضروریات ِ زندگی میں سے جو جائز طریقے سے مل جاتا ہے وہ اسی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ نہ کثرت کے حصول کے لیے اس کی راتوں کی نیند حرام ہوتی ہے اور نہ حرام کا ارتکاب کرکے وہ احتسابی اداروں سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ اس کی ساری توجہ زندگی کے مقاصد پر ہوتی ہے اور یہ مقاصد ایسے ہیں جس میں اگر ایک طرف اللہ کے قرب سے دل روشن ہوتا ہے تو دوسری طرف بندوں کے ساتھ بھلائی کی وجہ سے معاملات میں بہتری اور ہر کام میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ انسان کی عملی زندگی کی پہلی منزل گھر بسانا ہے۔ گھر میں میاں بیوی ہوتے ہیں اور پھر اگر اللہ برکت دے تو اولاد ہوتی ہے۔ اس گھر کی بہتری، استواری، پائیداری، اور خیروبرکت کا مرکز ہونے کے لیے چند باتوں کی ضرورت ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے محبت کرنے والا، اس کے ہر دکھ درد کو اپنا سمجھنے والا، اور اس کی عزت کی حفاظت کرنے والاہو اور بیوی اپنے شوہر کی اطاعت گزار، اس کے دکھوں میں شریک، اس کی خوشیوں کی امین اور اس کی غیر حاضری میں شرم وحیا اور گھر کی حفاظت کرنے والی ہو اور اگر اللہ اولاد دے تو ماں باپ اولاد کے لیے شفیق ہوں اور اولاد ماں باپ کی فرمانبردارہو۔ جس گھر میں بھی یہ باتیں پائی جائیں گی وہ گھر دنیا میں جنت کا نمونہ ہوگا۔ یہی وہ باتیں ہیں جو گھر کے بارے میں شریعت کے احکام ہیں اور اگر خدانخواستہ ان میں سے ایک ایک بات ختم ہوتی جائے میاں بیوی میں اعتماد اٹھ جائے، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرنے لگیں، اولاد اپنے ماں باپ کی گستاخ ہوجائے اور ماں باپ اپنے بچوں سے بیزار ہوجائیں، گھر میں شوہر جو کچھ کماکرلائے بیوی ہمیشہ اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے اور اولاد اپنے ہوائے نفس کے تقاضوں کے لیے اس کمائی کو ناکافی سمجھے، شوہر جیسے جیسے غلط ذرائع استعمال کرتاجائے ویسے ویسے ان مطالبات میں بھی ترقی ہوتی جائے۔ اندازہ فرمائیے ! اس گھر کی دیواریں تو شائد کھڑی رہیں لیکن اس گھر کے مکین اس گھر سے لاتعلق ہوجائیں گے اور یہ گھر ان کے لیے پناہ گاہ یا ٹھنڈا سایہ نہیں بلکہ ایک سرائے بن کر رہ جائے گا۔ اولاد صرف راتیں گزارنے کے لیے اسے استعمال کرے گی تو کیا آپ اس گھر کو واقعی گھر کہہ سکتے ہیں ؟ اگر آپ غور فرمائیں تو اسی نتیجے ہر پہنچیں گے کہ اس گھر کو جہنم بنانے والی چیز پر وہ آزادیاں ہیں جنھوں نے شریعت کے احکام کو توڑا اور آزادیاں حاصل کرتے کرتے گھر کی حقیقت کو پامال کردیا۔ زندگی کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں جو معاشرتی اصلاح کے احکام دیئے ہیں بظاہر وہ احکام ہیں لیکن حقیقت میں وہ تمہاری بہت ساری بیڑیاں توڑنے اور بہت سارے طوق اتارنے کا ذریعہ ہیں اس نے تمہارے بہت سارے بوجھ ہلکے کردئیے ہیں اور ان میں سے کوئی حکم ایسا نہیں جو تمہارے لیے دشواری کا باعث ہو کیونکہ پروردگار سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ اسے کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ وہ سخت احکام کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن ساتھ ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا ہے کہ وہ آوارگی اور عیاشی کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ناگوار پابندیاں اس کے لیے دشواری کا باعث ہوسکتی ہیں اسی طرح حد سے بڑھی ہوئی آزدیاں بھی اس کی انسانیت کے لیے سم قاتل بن سکتی ہیں۔ اس لیے اسے ایسے احکام دئیے گئے جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسی معتدل زندگی گزار سکتا ہے جو اس کی ذات اور صفات کے عین مطابق ہو۔
Top