Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم بچتے رہو ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم روکے جارہے ہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں جھاڑ دیں گے اور تم کو عزت کے مقام میں داخل کریں گے
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَـآئِرَ مَاتُنْھَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْـکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا (اگر تم بچتے رہو ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم روکے جارہے ہو تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں جھاڑ دیں گے اور تم کو عزت کے مقام میں داخل کریں گے) (النسآء : 31) کبائر اور صغائر کا مفہوم اللہ تعالیٰ ہمارا معبودِ برحق اور حاکم حقیقی ہے وہی ہماری آنکھوں کی روشنی اور دلوں کے سکون کا باعث ہے۔ ہم ہرحال میں اس کے احکام کے پابند ہیں اور اس کی رضا کا حصول ہماری منزل ہے۔ ہماری حیثیت اس کے سامنے ایک بندئہ محض کی ہے جسے صرف بندگی زیب دیتی ہے۔ وہ اپنی حیثیت کے حوالے سے اپنے آقا کی کسی بھی معصیت اور سرتابی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے ہرگز یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس کا کوئی حکم توڑے یا اس کی خوشنودی کے خلاف کوئی کام کرے، اسے بہرصورت اپنے اللہ کی بندگی اور اطاعت کرنی ہے۔ بات کوئی چھوٹی ہو یا بڑی اسے کسی طرح بھی معصیت اور نافرمانی کا کوئی حق نہیں۔ اس کے چھوٹے اور بڑے گناہ کی مثال محسوسات کے حوالے سے ایسی ہے جیسے آگ کا بڑا انگارہ اور چھوٹی چنگاری۔ لیکن کوئی عقل مند انسان دونوں میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرسکتا۔ اس لیے حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ تم جس قدر کسی گناہ کو ہلکا سمجھو گے اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک بڑا جرم ہوجائے گا۔ اور سلف صالحین نے فرمایا کہ ہر گناہ کفر کا قاصد ہے جو انسان کو کافرانہ اخلاق و اعمال کی طرف دعوت دیتا ہے۔ لیکن یہ اللہ کا انتہائی فضل و احسان ہے کہ ایک بندہ ہوتے ہوئے ہمارے لیے کسی گناہ کا کوئی موقع نہیں۔ لیکن اس نے گناہوں میں تقسیم فرمادی کہ کچھ گناہ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو تو ہم اپنے فضل و کرم سے تمہارے صغائر کو معاف فرمادیں گے یعنی جو احکام تم پر فرض وواجب کیے گئے ہیں تم ان کی بجاآوری میں کبھی کمی نہ کرو کیونکہ ان کا بجا نہ لانا بجائے خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔ فرائض وواجبات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اگر تم کبائر سے بچنے میں کامیاب ٹھہرے تو اللہ تعالیٰ فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تمہارے صغیرہ گناہ معاف فرمادے گا۔ ہمیں احادیثِ مبارکہ میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ حضور نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے وضو کرتا ہے تو ہر عضو کے دھونے کے ساتھ ساتھ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ چہرہ دھویا تو آنکھ، کان، ناک وغیرہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، کلی کی تو زبان کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، پائوں دھوئے تو پائوں کے گناہ دھل گئے، پھر جب وہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو ہر قدم پر گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص کبائر سے پرہیز پوری طرح نہیں کرتا اس کے صغائر بھی معانہیں ہوتے کیونکہ عملی زندگی میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتاوہ کسی کے پانچ روپے بھی کبھی نہیں دبا سکتا۔ لیکن جو لوگ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا ہتمام کرتے ہیں اور کبائر کے ارتکاب سے نہیں بچتے وہ ساری زندگی مچھرچھانتے رہتے اور اونٹ نگلتے رہتے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ قرآن وسنت میں کبیرہ گناہ کسے کہا گیا ہے ؟ تو اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس کی تشریح فرمائی ہے۔ صاحبِ معارف القرآن فرماتے ہیں : ” گناہ کبیرہ کی تعبیر قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے۔ وہ سب گناہ کبیرہ ہیں اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرأت و بیباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ ابن عباس ( رض) کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ امام بن حجر مکی نے اپنی کتاب الزواجر میں ان تمام گناہوں کی فہرست اور ہر ایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے جو مذکورالصدر تعریف کی رو سے کبائر میں داخل ہیں ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چارسو سڑسٹھ تک پہنچی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابواب معصیت کو شمار کرنے پر اکتفاء کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے بعض نے ان کی تفصیلات اور انواع و اقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی، اس لیے یہ کوئی تعارض واختلاف نہیں ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین، کہیں چھ، کہیں سات، کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں۔ اسی سے علمائے امت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصار کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کردیا گیا۔ بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں بھی جو سب سے بڑے ہیں میں تمہیں ان کی خبر کرتا ہوں وہ تین ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی یاجھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اسی طرح بخاری ومسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائو حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مار ڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی چونکہ اپنے اہل واعیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم دوگنا ہوگیا۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ماں باپ کو گالی دینے لگے ؟ فرمایا کہ ہاں ! جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں کیونکہ یہ ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے شرک اور قتل ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پرکھانے اور سود کی آمدنی کھانے اور میدانِ جہاد سے بھاگنے اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بےحرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ بعض روایات حدیث میں اس کو بھی کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی شخص دارالکفر سے ہجرت کرنے کے بعد پھر دارالہجرۃ کو چھوڑ کردارالکفر میں دوبارہ چلاجائے۔ دوسری روایاتِ حدیث میں ان صورتوں کو بھی کبیرہ کی فہرست میں داخل کیا گیاہیے مثلاً جھوٹی قسم کھانا، اپنی ضرورت سے زائد پانی کو روک رکھنا، دوسرے ضرورت والوں کو نہ دینا، جادو سیکھنا، جادو کا عمل کرنا اور فرمایا کہ شراب پینا اکبر الکبائر ہے اور فرمایا کہ شراب پینا ام الفواحش ہے کیونکہ شراب میں مست ہو کر آدمی ہر برے سے برا کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی پر ایسے عیب لگائے جس سے اس کی آبروریزی ہوتی ہو۔ ایک حدیث میں ہے جس شخص نے بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کردیاتو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی نماز کو اپنے وقت میں نہ پڑھا بلکہ قضاء کرکے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا۔ بعض روایات حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے عذاب وسزا سے بےفکر و بےخوف ہوجانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ وارث کو نقصان پہنچانے اور اس کا حصہ میراث کم کرنے کے لیے کوئی وصیت کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہوگئے اور تین وفعہ اس کلمہ کو دہرایا حضرت ابوذر غفاری ( رض) نے عرض کیا یارسول اللہ یہ محروم القسمۃ اور تباہ و برباد کون لوگ ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پاجامہ یاتہبند یا کرتہ اور عباء کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے، دوسرا وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرکے احسان جتلائے، تیسرا وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو، چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے، چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ پر محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ چغلی کھانے والا جنت میں نہ جائے گا۔ نسائی ومسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات و شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث یعنی اپنے اہل و عیال کو بےحیائی سے نہ روکنے والا۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی کے لیے قربان کرے۔ “ صاحبِ تفہیم القرآن نے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کے مفہوم کے حوالے سے قرآن وسنت کی تفصیلات کو دیکھتے ہوئے مغز کی بات پانے کی کوشش کی ہے چناچہ وہ لکھتے ہیں : یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اصولی فرق کیا ہے ؟ جہاں تک میں نے قرآن وسنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ علم باالصواب) کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں : 1 کسی کی حق تلفی، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہے یا والدین ہوں یا دوسرے انسان یا خود اپنانفس، پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ” ظلم “ بھی کہا جاتا ہے اور اسی بناپرشرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ 2 اللہ سے بےخوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امرونہی کی پرواہ نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے اور عمداً ان کاموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنے اندر لیے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ” فسق اور معصیت “ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ 3 ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان، پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور اس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجیے ! یہ فعل فی تفسہٖ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ آدمی کا زنا کرنا بن بیا ہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے زنا کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھروالوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے۔ محرمات مثلاً بہن یابیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں زنا کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشدّ ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے جہاں انسانی رابطہ جتنازیادہ مستحقِ احترام ہے اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجبِ فساد ہے وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ” فجور “ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
Top