Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ
: مرد
قَوّٰمُوْنَ
: حاکم۔ نگران
عَلَي
: پر
النِّسَآءِ
: عورتیں
بِمَا
: اس لیے کہ
فَضَّلَ
: فضیلت دی
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْضَھُمْ
: ان میں سے بعض
عَلٰي
: پر
بَعْضٍ
: بعض
وَّبِمَآ
: اور اس لیے کہ
اَنْفَقُوْا
: انہوں نے خرچ کیے
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: اپنے مال
فَالصّٰلِحٰتُ
: پس نیکو کار عورتیں
قٰنِتٰتٌ
: تابع فرمان
حٰفِظٰتٌ
: نگہبانی کرنے والیاں
لِّلْغَيْبِ
: پیٹھ پیچھے
بِمَا
: اس سے جو
حَفِظَ
: حفاطت کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَالّٰتِيْ
: اور وہ جو
تَخَافُوْنَ
: تم ڈرتے ہو
نُشُوْزَھُنَّ
: ان کی بدخوئی
فَعِظُوْھُنَّ
: پس امن کو سمجھاؤ
وَاهْجُرُوْھُنَّ
: اور ان کو تنہا چھوڑ دو
فِي الْمَضَاجِعِ
: خواب گاہوں میں
وَاضْرِبُوْھُنَّ
: اور ان کو مارو
فَاِنْ
: پھر اگر
اَطَعْنَكُمْ
: وہ تمہارا کہا مانیں
فَلَا تَبْغُوْا
: تو نہ تلاش کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
سَبِيْلًا
: کوئی راہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيًّا
: سب سے اعلی
كَبِيْرًا
: سب سے بڑا
(مرد عورتوں پر قوام ہیں بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں پس جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرمانبرداری کرنے والی رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کرو اور ان کو ان کے بستروں پر تنہا چھوڑ دو اور ان کو سزا دو پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راستہ تلاش نہ کروبیشک اللہ تعالیٰ بہت بلند اور بہت بڑا ہے
اَلرِّجَالِ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَـآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَـکُمْ فلاَ تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (مرد عورتوں پر قوام ہیں بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں پس جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرمانبرداری کرنے والی رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کرو اور ان کو ان کے بستروں پر تنہا چھوڑ دو اور ان کو سزا دو پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راستہ تلاش نہ کروبیشک اللہ تعالیٰ بہت بلند اور بہت بڑا ہے) (النسآء : 34) آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے تمہید پیشتر اس سے کہ ہم اس آیت کی وضاحت کریں تمہیدی طور پر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لیے جو حدود اور آداب متعین کرتا ہے، اس کی تربیت کے لیے پہلا ادارہ گھر کو قرار دیتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں گھر ایک ایسی اکائی ہے جو اجتماعیت کی پہلی کونپل ہے۔ اسی سے خاندان کی تنظیم ہوتی ہے، یہی آگے بڑھکر معاشرہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اسی سے ریاست وجود میں آتی ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس گھر کی حقیقی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے اس کو حصن قرار دیا ہے اور نکاح کو احصان کا نام دیا ہے۔ گویا یہ گھر انسانی معاشرے کی پہلی اکائی کا قلعہ ہے اور نکاح کے ذریعے سے اس کی قلعہ بندی کی جارہی ہے۔ جس میں رہنے والے دوسرے انسانوں کی طرح جنسی خواہشات رکھتے ہوئے بھی شرم وحیا اور عفت اور پاکدامنی کے قلعے میں محصور رہ کر زندگی گزاریں گے اور جس میں پیدا ہونے والا بچہ انتہائی پاکیزہ اور محفوظ نسب کا حامل ہونے کی وجہ سے والدین کے خصائل حسنہ اور صفات حمیدہ کا امین ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ جہاں اس رشتے کا مقصد عفت اور پاکدامنی پیدا کرنا ہے وہاں اس گھر میں رہنے والوں میں مؤدت اور رحمت کے جذبات پیدا کرنا بھی مقصود ہے کیونکہ کوئی قلعہ محض اینٹوں کی پختگی اور مضبوطی سے پائیدار نہیں ہوتا بلکہ قلعے میں رہنے والے اور اس کے مورچوں میں بیٹھنے والے لوگوں کی باہمی محبت، گہرے تعلق اور باہمی ہم آہنگی سے پائیداری اور استواری وجود میں آتی ہے۔ ان تصورات کے پیش نظر یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ گھر کی یہ چھوٹی سی وحدت حقیقت میں ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کے زیر سایہ رہنے والوں کی حفاظت ان کی عادات واطوار کی درستی، ان کے اعمال و افکار کی تہذیب وتنقیح اس ریاست کا اولین مقصد ہے۔ اور مزید یہ کہ یہ ریاست اپنے نظریاتی مقاصد بھی رکھتی ہے اور پھر اپنے زیر سایہ رہنے والوں میں باہمی ہم آہنگی اور مودت و رحمت کے جذبات بھی پیدا کرنا چاہتی ہے یقینا اس کا کوئی نہ کوئی سربرراہ کار، کوئی نہ کوئی نگران اور منتظم اور کوئی نہ کوئی امیر اور حاکم ہونا چاہیے اس لیے کہ دنیا کی ریاست تو خیر دور کی بات ہے ایک چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی تقسیم کار اور تقسیم اختیارات اور سربراہی کا فیصلہ کیے بغیر اولاً تو وجود میں ہی نہیں آتا اور اگر وجود میں آجائے تو باقی نہیں رہتا اور اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ جس ادارے میں جتنے افراد کام کرتے ہیں وہ سب برابر کے اختیارات رکھیں گے اور کوئی کسی کو کسی غلطی پر ٹوکنے کا مجاز نہیں ہوگا بلکہ ہر کوئی من مرضی کا مالک ہوگا تو آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ادارہ چند دن بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ پوری دنیا میں اس مسلمہ حقیقت کا چلن ہم عام دیکھتے ہیں کہ اداروں اور ریاستوں میں کام کرنے والے لوگ جس طرح مختلف فرائض رکھتے ہیں اسی طرح مختلف حیثیتوں کے مالک بھی ہیں۔ کسی انتظامی شعبے کا کوئی ایک سیکشن بھی دیکھ لیجیے اس میں باہر آپ کو ایک نائب قاصد ملے گا، اندر کام کرنے والے چند کلرک دکھائی دیں گے، ان کے اوپر ایک ہیڈ کلرک ہوگا، پھر ان کی نگرانی کے لیے ایک اسسٹنٹ اور پھر سپرنٹنڈنٹ ہوگا اور ان سب کے اوپر راہنمائی اور نگرانی کے لیے ایک سیکشن آفیسر ہوگا۔ غور کیجیے ! یہ تمام انسان ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن صلاحیتوں کے اعتبار سے اختیارات کے اعتبار سے اور اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہرگز برابر نہیں۔ یہ حال اس ایک سیکشن کا ہے جس کو دن بھر میں چند گھنٹے کام کرنا ہے اور چند ذمہ داریاں ادا کرنا ہیں۔ رہا وہ گھر جس کے رہنے والوں کو زندگی بھر اکٹھے رہنا ہے اور جن کے سپرد نوع انسانی کی آئندہ تیار ہونے والی نسل کی زندگی اور ان کے فکر وعمل کی درستی کی ذمہ داری ہے اسے اگر اس سوال کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا جائے کہ اس چھوٹی سی ریاست کا سربراہ کون ہوگا ؟ اور اس گھر میں رہنے والے باقی افراد کی حیثیت کیا ہوگی ؟ یعنی ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیسے کیا جائے گا ؟ تو یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ گھر باقی نہیں رہ سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ریاست جس کا آغاز دوافراد یعنی میاں اور بیوی سے ہورہا ہے ان دونوں میں سے کس کو سربراہی کے مقام پر فائز کیا جائے ؟ دونوں تو سربراہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ یہ عقل اور انسانی تجربے کے خلاف ہے۔ کسی ایک کو بہرحال سربراہ بننا ہے تو وہ مرد ہو یا عورت ؟ قرآن کریم کا جواب یہ ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : اَلرِّجَالِ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَـآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (مرد عورتوں کے سربراہ منتظم اور سرپرست ہیں بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے) قوامکا معنی ” حاکم، محافظ، سربراہ کار، معاملات کا منتظم اور نگران “ کے ہیں۔ عربی زبان میں قائم کے بعد علٰی آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت اور تولیت کا بھی۔ یہ مرد کا قوام ہونا بلاوجہ نہیں بلکہ اس پر قرآن کریم نے اسی آیت میں دو دلائل بھی مہیا فرمائے ہیں۔ 1 اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے۔ جس کی بنا پر وہ سزاوار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت ومدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پائوں مارنے کی جو استعداد اور ہمت اس کے اندر ہے وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کا قوامیت سے تعلق نہیں مثلاً عورت گھر درسنبھالنے اور بچوں کی پرورش ونگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد و عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔ 2 دوسری دلیل یہ ہے کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام تر اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس حق کا ادا کرسکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے مرد کی اس حیثیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھلِہٖ وَمَسْئُوْلٌ مرد اپنے اہل خانہ کانگران ہے اور اسی سے اس نگرانی کے حوالے سے سوال کیا جائے گا مرد کو چونکہ گھر کی راہنمائی، نگرانی، گھر بھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور پھر قیامت کے دن اسی حوالے سے اس سے سوال بھی کیا جائے گا۔ واضح بات ہے کہ جب کسی پر ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو پھر اس کو اختیارات بھی دئیے جاتے ہیں اس لحاظ سے مرد کو بھی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایسے حقوق عطا کیے گئے اور ایسے اختیارات دئیے گئے ہیں جن کو کام لاکر وہ باحسن طریق اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو بیوی پر جو بھی حقوق حاصل ہیں اس کی بنیاد مرد کا قوام ہونا اور گھر کی اس حیثیت اور کردار کا تسلیم کرنا ہے جس کا ذکر سابقہ سطور میں کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں بنیادی باتوں کو قبول نہ کیا جائے تو پھر ایک عورت کے لیے مرد کے حقوق یعنی اپنی ذمہ دایوں کو تسلیم کرنا چنداں آسان نہیں۔ یہ وہ بنائے نزاع ہے جس نے آج مرد و عورت کے تعلق کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اولاد کی تربیت روز بروز زوال کا شکار ہے۔ دنیاکا کوئی ادارہ بھی جسے کوئی مثبت اور تعمیری کام سرانجام دینا ہے یہ صورت حال قبول نہیں کرسکتا کہ اس میں فرائض ادا کرنے والے نہ اپنے سامنے اہداف کو اہمیت دیں اور نہ کسی کی نگرانی اور راہنمائی کو قبول کریں۔ بس ان کے سامنے زندگی سے لطف اٹھانے دادعیش دینے اور کھانے پینے کے سوا کسی چیز کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ اگر دنیا میں معمولی نوعیت اور مختصر دائرہ میں اثر انداز ہونے والے اداروں کا یہ حال ہے تو زندگی کو وجود بخشنے والا ادارہ یعنی انسان کا مولد ومبدا اور پھر اس کی نشأۃ وارتقاء کا ضامن اور اس کے افکار و اعمال کی پہلی تربیت گاہ کے معاملے میں یہ رویہ کہاں تک قابل قبول ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی کے بارہ یہ احمقانہ تصور قبول کرلیاجائے کہ مردو عورت کی برابری اور مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ عورت مرد بن کر زندگی گزارے گی اور اس کا دائرہ کار بھی وہی ہوگا جو مرد کا دائرہ کار ہے۔ پھر پروپیگنڈا کے زور اور آزادیِ نسواں کے پُرفریب نام سے عورت کو ایسا بیوقوف بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں عورت پوری طرح جسمانی، روحانی اور اخلاقی استحاصل کا شکار ہوئی۔ وہ عورت جس کی گود میں تاریخ کی بڑی سے بڑی عظمتوں نے آنکھیں کھولی تھیں اور جس کے پائوں تلے جنت کی نوید سنائی گئی تھی اس کی گود بھی اجڑ گئی اور اس کا بڑھاپا بھی رسوا ہوگیا۔ انسانیت کی اس تذلیل میں چونکہ مرد نے بھی عیارانہ کردار ادا کیا ہے اس لیے دونوں کو قدرت سزادے رہی ہے کہ کہیں آئے دن عہد وفا کی شکست و ریخت نے خودکشی کی وارداتوں کے تناسب کو تشویشناک حد تک بڑھادیا ہے اور کہیں نرسنگ ہومز اور اولڈ ہومز کی صورت میں انسانیت تذلیل کا شکار ہو کر اپنی آنکھوں سے اپنے انجام کو دیکھ رہی ہے۔ غضب خدا کا کہ عورت کو آزادی کے نام پر گھر سے نکالا اور اس نے اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر گھر کی چاردیواری میں محصور ہونے اور چھوٹے بہن بھائیوں شوہر اور بچوں کی خدمت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ چولہا جھونکنا اور دوسروں کی خدمت کرنا میری توہین ہے۔ میں اس رجعت پسندی اور دقیانوسیت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ جس عورت کو گھر میں بیٹھنا اور اہل خانہ کی خدمت رجعت پسندی معلوم ہوتی تھی وہ ہوٹلوں میں ویٹرس بنی ہوئی دن رات لوگوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ہوٹلوں میں بستروں کی چادریں بدل رہی ہے۔ ہوائی جہازوں میں ائیرہوسٹس بن کر سینکڑوں مہمانوں کی جا وبے جانازبرداریاں کررہی ہے اور ہوسناک نگاہوں کانشانہ بنی ہوئی ہے۔ اسی پر بس نہیں دفتروں میں اسٹینو گرافر یا کسی صاحب کی سیکرٹری بن کرمتاعِ دین و دانش لٹارہی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام کے نزدیک اس خرابی کی تمام ترذمہ داری اور انسانیت کی اس تذلیل کا تمام تر انحصار مردو عورت کے تعلق کے غلط ہونے پر ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ وہ اسی طرح ممکن ہے کہ ان دونوں کو ان کے حقیقی مقام اور اپنے اپنے فرائض سے آگاہ کیا جائے اس لیے وہ سب سے پہلے اس تعلق کو درست کرنے کے لیے مرد کے قوام ہونے کا اعلان کرتا ہے اور پھر اسی حوالے سے اس کے حقوق کا ذکر کرتا ہے۔ بیویوں کی صفات اور فرائض گھر کی اہمیت اور مرد کی حیثیت کو واضح کرنے کے بعدبیویوں کی صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ جو درحقیقت بیویوں کی ذمہ داریاں اور فرائض اور مردوں کے ان کے ذمہ حقوق ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کو صحیح معنی میں گھر بنانے اور آئندہ بچوں کی تربیت کے لیے خاتونِ خانہ کی اصل حیثیت کا تعین بھی ہے۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ بیویاں اور گھروں کی ذمہ دار خواتین صالحات ہوتی ہیں۔ یہ ان کی ایسی مستقل صفت ہے جو ان سے کبھی منفک نہیں ہوتی۔ صالحات ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ تعلقات اور گھر کے معاملات کو چلاتے ہوئے اپنے نفس کی ہدایات پر نہیں چلتیں بلکہ اللہ اور رسول کی ہدایات ان کی راہنما ہوتی ہیں۔ وہ ہرحال میں اللہ سے ڈرنے والی اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے والی ہوتی ہیں۔ اللہ کی نعمتوں پر شکر گزار اور تنگیوں پر صبر کرنے والی ہوتی ہیں۔ وہ ہرحال میں اپنے شوہر کی وفاداری کرتی ہیں۔ ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ قانتات ہوتی ہیں۔ قانتات کا معنی ہے ” فرمانبرداری کرنے والیاں “۔ یعنی نیک بیویوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہائیت فرمانبرداری کے ساتھ اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : اَعْظَمُ النَّاسِ حَقًّا عَلَی الْمَرأۃِ زَوْجُہَا وَاَعْظَمُ النَّاسِ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ اُمُّہ (لوگوں میں سے سب سے زیادہ حق عورت پر اس کے شوہر کا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ حق مرد پر اس کی والدہ کا ہے) مزید فرمایا : لَوْکُنْتُ اَمُرُاَحَدًاَنْ یَّسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ الْمَرْأۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِھَا (اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے) قرآن وسنت کے ان واضح ارشادات سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو عورتیں صالحات بن کر نہیں رہنا چاہتیں اور وہ اپنے شوہر کی اطاعت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتی اور اسے اپنی آزادی کے لیے چیلنج گردانتی ہیں، وہ درحقیقت عورت بن کر نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مرد بن کر رہنا چاہتی ہے۔ ان کا یہ رویہ صالحات کا نہیں بلکہ فاسقات کا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے اسلام کے نظام عفت وعصمت اور عائلی قوانین کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ نتیجتاً گھر برکتوں اور خوشحالیوں سے محروم ہوگئے۔ تیسری صفت ان نیک بیبیوں کی یہ ہے کہ وہحٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ ہوتی ہیں۔ یعنی وہ مرد کی عزت وناموس اور رازوں کی حفاظت کرتی ہیں اور وہ ہراس چیز کی حفاظت کرتی ہیں جو شوہر کی غیر موجودگی میں بطورامانت عورت کے پاس ہے۔ اس میں اس کے نسب کی حفاظت، اس کی آبرو کی حفاظت، اس کے مال کی حفاظت، اس کے رازوں کی حفاظت، خود اس کی اپنی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت، غرض سب کچھ اس میں آجاتا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدرتی امین ہیں۔ بالخصوص عورت کا مرتبہ تو یہ ہے کہ وہ مرد کے محاسن ومعائب اس کے گھر در، اس کے اموال واملاک اور اس کی عزت و ناموس ہر چیز کی ایسی رازدان ہے کہ اگر اس کا پردہ چاک کرنے پر اتر آئے تو مرد بالکل ہی ننگا ہو کر رہ جائے۔ اس لیے قرآن کریم نے میاں بیوی کی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : ھُنَّ لِبَاسٌ لَّـکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارا لباس ہیں تم ان کا لباس ہو “۔ لباس جس طرح ایک لباس پوش کے لیے پردہ پوش حفاظت کرنے والا اور اس سے گہرے اتصال کی علامت ہے، یہی حال میاں بیوی کا بھی ہے۔ بیوی پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ اطاعت کے ساتھ ساتھ مرد کے رازوں اور ان تمام چیزوں کی جس کا ابھی ذکر ہوچکا ہے حفاظت کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس کی تفصیل بیان فرمائی، جن میں سے میں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : ان لکم علیھن ان لایوطئن فرشکم احد تکرھوا (تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے ہاں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو) لاَ تُصَدِّقُ بِشَی ئٍ مِن بَیتِہٖ اِلَّا بِاِذْنِہٖ فَاِنْ فَعَلَتْ کَانَ لَـہٗ الْاَجْرُ وَعَلَیْھَا الْوِزْرُ وَلاَ تَخْرُجُ مِن بَیـتِہٖ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (وہ اس کے گھر میں سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر صدقہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو اجر شوہر کو ملے گا اور گناہ عورت پر ہوگا نیز وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے) خَیْرُالنِّسَآئِ اِمْرَأۃُ اِذَا نَظَرَتَ اِلَیْھَا سَرَّتْـکَ وَاِذَا اَمَرْتَھَا اَطَاعَتْـکَ وَاِذَا غِبْتَ عَنْھَا حَفِظَتْـکَ فِیْ مَالِکَ وَنَفْسِھَا (بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اس کو دیکھے تو تمہارا دل خوش ہوجائے اور جب تو اس کو حکم دے وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تو اس کے پاس موجود نہ ہو تو وہ تمہارے مال اور اپنے نفس میں تمہارے حق کی حفاظت کرے) شوہر کی اطاعت غیر مشروط نہیں البتہ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہ اطاعت غیر مشروط نہیں کیونکہ غیر مشروط اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی سے اللہ کی معصیت کا مطالبہ کرے مثلاً وہ فرض نماز اور روزے سے منع کرے یا شراب پینے کا حکم دے یا پردہ شرعی ترک کرائے یا فواحش کا ارتکاب کرانا چاہے تو عورت نہ صرف انکار کرنے کی مجاز ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ شوہر کے ایسے حکم کوٹھکرادے۔ اس لیے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ مختصر یہ کہ ایک بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے اور یہی اس کی ذمہ داری ہے اور یہی رویہ اس گھر کے لیے سرتاپا رحمت ہے اور اللہ کی رحمتیں ہمیشہ اس پر برستی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو دیکھے تو بیوی مسکرائے اور بیوی شوہر کو دیکھے تو شوہر مسکرائے تو دونوں کی اس خوشی کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر مسکرانے لگتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کی بظاہر آپس کی خوشیاں جو نفسانی خواہشیں بھی کہی جاسکتی ہیں لیکن وہ اللہ کی رحمت کا سبب بنتی ہیں۔ کیونکہ یہی خوشیاں اور یہ بہتر رویہ انسانی معاشرے کی بہتری اور اس کے تہذیب و تمدن کے ارتقا کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بیوی شوہر کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتی ہے جسے قرآن کریم نے نشوز کا نام دیا ہے تو اس کے لیے اس آیت کے اگلے حصے میں ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ ارشاد فرمایا : وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَـکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا (اور جن سے تمہیں نشور کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کرو اور ان کو ان کے بستروں پر تنہا چھوڑ دو اور ان کو سزادو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو بیشک اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ) (نشوز کی صورت میں شوہر کو تین اختیارات دیئے گئے ہیں) (1) نصیحت، (2) ھجر فی المضاجع، (3) تعزیر نشوز کا مفہوم ان تینوں اختیارات کا تعلق چونکہ نشوز سے ہے اس لیے نشوز کا مفہوم سمجھ لینا چاہیے نشوز معمولی عدم اطاعت کو نہیں کہتے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیوی نے اگر ذرا سا کسی بات سے انکار کیا یا تعمیل حکم میں لاپرواہی کی یا کسی بات میں کوتاہی ہوگئی تو یہ سمجھ لیاجائے کہ نشوز کا جرم سرزد ہوگیا اور نہ شوہر کو اتنا ذکی الحس ہونا چاہیے اس لیے کہ جس پروردگار نے شوہر کو بیوی پر قوام بنایا ہے اسی نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ (اور اس اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ نشانی ہے کہ اس نے تمہاری بیویوں کو تمہارے لیے تمہارے نفسوں سے پیدا کیا تاکہ تم ان سے سکون پائو اور اس نے تمہارے درمیان ہمدردی اور رحمت پیدا کردی) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں صرف یہی تعلق نہیں رکھا کہ مرد حاکم ہے اور بیوی محکوم، مردآمر ہے اور بیوی مامور بلکہ ان کے درمیان یہ تعلق بھی ہے کہ شوہر اپنی بیوی میں سکون پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں ہمدردی اور رحمت کا رشتہ رکھا ہے۔ ہمدردی اور رحمت کے رشتے کا یہ تقاضا ہے کہ انتظامی ضرورتوں کے حوالے سے اگرچہ شوہر کو ایک فوقیت حاصل ہے اور اس کے احکام کا احترام ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا رویہ اپنی بیوی سے ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسے ایک حکمران اور بادشاہ کا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ حکم ہے کہ تم میں سے دو دوست بھی اگر کہیں سفر کریں تو دونوں آپس میں ایک کو امیر بنالیں تاکہ راستے کے معمولات حسن و خوبی سے انجام پاسکیں۔ اب اس امیر بننے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دوستوں میں دوستی کی نزاکتیں ختم ہوگئیں اسی طرح شوہر کو اگرچہ قوام بنایا گیا ہے اور اسے ایک درجہ فضیلت حاصل ہے لیکن یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ باہمی مودت و رحمت کے رشتے کو بھول جائیں۔ اس لیے میاں بیوی میں اگر کہیں معمولی اختلاف بھی ہوجائے تو اس کی شوہر کو ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے برداشت کرنا چاہیے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے معمولی اختلاف تو آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات آنحضرت سے بھی کرتی تھیں اگرچہ جواب نہیں دیتی تھیں۔ لیکن طبیعتوں میں کسی بات سے انقباض کا پیدا ہوجانا انسانی فطرت ہے۔ لیکن حضور نے کبھی اسے برا نہیں مانا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ عائشہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو ” رب محمد “ کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو ” رب ابراہیم “ کہہ کر قسم کھاتی ہو۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا حضور : انی لا اھجر الا اسمک ” حضور میں آپ کے نام کے سوا اور کوئی چیز ترک نہیں کرتی “۔ یعنی صرف آپ کا نام نہیں لیتی ورنہ خدانخواستہ آپ سے تعلق میں تو کوئی کمی نہیں آتی۔ اندازہ کیجیے ! ازواجِ مطہرات اگر کسی معمولی ناراضگی کا شکار بھی ہوتی تھیں تو آنحضرت ﷺ اپنے بلند ترین مراتب کے باوجودان باتوں کو اپنی قوامیت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔ نشوز کی صورت میں شوہر کو تین باتوں کی ہدایت اس لیے نشوز کا معنی عدم اطاعت نہیں بلکہ یہ ایسی سرتابی اور سرکشی کو کہتے ہیں جو کسی عورت کی طرف سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکشی کی راہ پر چل پڑی ہے اور وہ ایساقدم اٹھانا چاہتی ہے جو مرد کی قوامیت کو چیلنج کرنے والا ہے اور جس سے گھر کے معمولات میں بدامنی اور اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے تو مرد تین صورتیں اختیار کرسکتا ہے اور قرآن کا انداز بیان دلیل ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ رہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ نصیحت و ملامت کرے۔ قرآن کریم میں وعظ کا لفظ ہے جس کے اندر فی الجملہ زجروتوبیخ کا مفہوم بھی پایا ہے۔ یعنی وہ ہر ممکن طریقے سے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرے کہ دیکھو تم نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے ہمارا گھر برباد ہوجائے گا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ اولاد پر اس کے اثرات نہایت منفی بھی ہوسکتے ہیں جب تک چھوٹے ہیں ہماری بےتوجہی کا شکار ہوں گے، بڑے ہوجائیں گے تو ہماری نافرمانی کریں گے کیونکہ بیوی جب شوہر کا احترام اور اطاعت نہیں کرتی تو اولاد کیسے کرے گی ؟ اور جب شوہر اپنا مقام و مرتبہ کھو دے گا تو اولاد مان کی بھی پرواہ نہیں کرے گی۔ اس طرح یہ گھر گھر نہیں رہے گا بلکہ سرائے بن جائے گا۔ اگر شوہر کا سمجھانا موثر نہ رہا ہو تو خاندان کے بزرگوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ شوہر کو نصیحت اور سمجھانے بجھانے کے تمام ممکن ذرائع اور تمام موثر اسالیب سے کام لے کر اصلاح حال کی کوشش کردیکھنی چاہیے لیکن اگر یہ تمام مساعی بیکار ثابت ہوں تو پھر دوسرے مرحلے میں دوسری ہدایت پر عمل ہونا چاہیے۔ وہ یہ کہ شوہر اپنی بیوی سے بےتکلفانہ خلاملا ترک کر دے۔ میاں بیوی کے درمیان جو بھی بےتکلفی کے تعلقات رشتہ ازدواج کی علامت ہیں ان سے یکسر لاتعلقی اختیار کی جائے تاکہ بیوی کو اندازہ ہوجائے کہ معاملہ بہت بگڑ گیا ہے اب اگر میں نے اپنی روش نہ بدلی تو اس کے نتائج دور رس بھی ہوسکتے ہیں۔ یہاں بھی دو باتیں ذہن میں رہنی چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جس طرح بیوی کے لیے ہرگز جائز نہیں کہ وہ اپنے اور شوہر کے درمیان فاصلہ رکھے اور شوہر سے صنفی تعلق سے احتراز کرے اس طرح مرد کے لیے بھی اس بات کی بالکل گنجائش نہیں ہے کہ وہ معمولی باتوں پر بیوی سے قطع تعلق کرے اور اس کے احساس کو زخمی کرے۔ یہ قطع تعلق صرف نشوز کی صورت میں بیوی کی راہ راست پر لانے کے لیے جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ترکِ مباشرت لا محدود نہیں دوسری بات یہ کہ یہ ترک تعلق لامحدود نہیں بلکہ آیت ایلا کے ذریعے اس کی ایک فطری حدمقرر کردی گئی ہے یعنی ترک مباشرت اور لاتعلقی چارمہینے سے زیادہ نہ ہو کیونکہ اگر بیوی کی طبیعت میں ذرا بھی سلامتی اور اصلاح کا مادہ ہوگا تو وہ اپنی روش بدلنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ ایسی شوریدہ سر ہے کہ اس انتہائی اقدام کی بھی پرواہ نہیں کرتی تو آخری درجے میں مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ لیکن اس میں بھی دو باتوں کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ 1 پہلی بات یہ کہ شوہر کو اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ جس خاتون نے نصیحت کا اثر قبول کیا نہ ترک تعلق اور ترک مباشرت سے راہ راست پر آئی کیا جسمانی سزا اسے راہ راست پر لے آئے گی ؟ کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین اپنے بگاڑ میں بھی بعض تخصصات رکھتی ہیں۔ ایسی سختی ان پر بالعموم منفی اثرات پیدا کرتی ہے۔ اگر صورتحال ایسی ہو تو پھر جسمانی سزا سے احتراز کرنا چاہیے۔ البتہ ! اگر واسطہ کسی ان پڑھ خاتون یا ایسے مزاج کی خاتون سے ہو تو پھر اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مقصد تو اصلاح احوال ہے۔ 2 دوسری بات جس کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ جسمانی سزا اس حد تک ہونی چاہیے جس حد تک ایک معلم ومودِّب اپنے کسی زیر تربیت شاگرد کو دے سکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد سے ہمیں واضح راہنمائی ملتی ہے۔ ارشادنبوی ہے : اسْتَوْصُوْابِالنِّسَائِ خَیْرَا فَاِنَّھُنَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٌ لَیْسَ تَمْلِـکُوْنَ مِنْھُنَّ شَیْئًا غَیْرِ ذٰلِکَ اِلَّا اَنْ یَّاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ فَاِنْ فَعَلْنَ فَاھْجُرُوْھُنَّ وَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْباً غَیْرَ مُبَرَّحٍ فَاِنْ اَطَعنَـکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیِْلاً (عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت حاصل کرو کیونکہ وہ تمہارے ماتحت ہیں۔ تم اس کے سوا کسی اور شے کے مالک نہیں مگر جب وہ کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ترک تعلق کرو اور انھیں ہلکی مار دو ۔ اگر وہ اطاعت کرلیں تو ان سے کچھ نہ کہو) ایک دوسرے ارشاد میں فرمایا : وَاضْرِبُوھُنَّ اِذَا عَصَیْنَـکُمْ فِی الْمَعْرُوْفِ غَیْرَ مُبَرَّحٍ وَلَایَضْرَبُ اِلَّاوَجْہُ وَلاَ یُقْبَحُ (جب وہ معروف میں تمہاری نافرمانی کریں تو انھیں ہلکی ماردو اور چہرہ پر نہ مارو اور برا بھلا نہ کہو) ان احادیث میں غَیْرَ مُبَرَّحٍ کے الفاظ سے مار اور سزا کی حد واضح فرمادی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سزا ایسی نہ ہو کہ وہ پائیدار اثر چھوڑ جائے۔ بدزبانی نہ کی جائے نیز وَلاَ یُقْبَحُ بھی فرمایا گیا کہ جسمانی سزا تادیب کے لیے ہونی چاہیے اس لیے اپنی بیوی کو گالی گلوچ یا برے کلمات کہہ کر ذہنی اذیت مت دو ۔ مرد کے تادیبی اختیارات کی یہ آخری حد ہے اگر اس کا نتیجہ مفید مطلب برآمد ہو اور عورت بغاوت کی بجائے اطاعت کی راہ پر آجائے تو پچھلی کدورتیں بھلادینی چاہئیں، اس سے انتقام لینے کے بہانے نہیں ڈھونڈنے چاہیئں۔ مردکو اپنی قوامیت کے زعم میں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا اللہ ہے جس کی گرفت سے کوئی باہر نہیں۔ لیکن اگر یہ ترغیب وتادیب کے تمام ممکن ذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی عورت نشوز سے تائب نہیں ہوتی اور مرد کی تمام تدابیر اکارت جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے مرد یعنی شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اب چونکہ یکجائی کی کوئی صورت نہیں اور اختلافات کی خلیج بہت وسیع ہوگئی ہے اس لیے بہتر ہے کہ طلاق کے ذریعہ دونوں الگ ہوجائیں کیونکہ اب اگر زبردستی دونوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی تو اولاً تو یہ دونوں پر ظلم ہوگا اور ثانیاً اس سے مقاصدِ نکاح کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ نکاح کے دو بڑے مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ میاں بیوی کے باہمی گہرے جذباتی رشتے سے شرم وحیا اور عفت و عصمت کا وہ قلعہ تعمیر ہو جس میں یہ دونوں نہایت پاکیزہ زندگی گزاریں۔ دوسرایہ کہ ان دونوں کے درمیان مودت و رحمت کے جذبات کی وجہ سے معاشرے کو ایک مضبوط معاشرتی اور اخلاقی بنیا دفراہم ہو جو تہذیب و تمدن کے لیے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ممدومعاون ہو۔ لیکن جب دونوں مقاصد کسی طرح بھی بروئے کار آتے نظر نہیں آتے تو شریعت دوزندگیوں کو تباہ کرنے اور اس کے وسیع تر اثرات سے معاشرے کو بچانے کے لیے مرد کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ طلاق دے کر نئی زندگی کے آغاز کی صورت پیدا کردے۔ یاد رہے ! یہ اختیار اس نے مرد کو دیا ہے عورت کو یا کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا۔ قرآن کریم واضح طور پر جہاں بھی احکامِ طلاق بیان کرتا ہے وہاں فعل طلاق کو شوہر کی طرف منسوب کرتا ہے اور سورة البقرۃ آیت 31 میں صریحاً شوہر کے بارے میں کہتا ہے : بیدہ عقدۃ النکاح (نکاح کی گرہ شوہر کے ہاتھ میں ہے) اب کون یہ حق رکھتا ہے کہ اس گرہ کو اس کے ہاتھ سے چھین کر کسی اور کے ہاتھ میں دے دے۔ ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کی روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت سے شکایت کی کہ میرے آقا نے اپنی لونڈی کا نکاح مجھ سے کیا تھا اب وہ اسے مجھ سے جدا کرنا چاہتا ہے۔ اس پر آپ نے خطبے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : یٰااَیُّھَالنَّاسُ مَا بَالُ اَحَدِکُم یُزَوِّجُ عَبدَہُ اَمَتَہُ ثُمَّ یُرِیْدُ اَنْ یُّفَرَّقُ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ اَخَذَ بِالسَّاقِ (اے لوگو ! یہ کیا ماجرا ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام سے اپنی لونڈی بیاہ دیتا ہے پھر دونوں کو جدا کرنا چاہتا ہے، طلاق کا اختیار تو شوہر کو ہے ) ویسے بھی طلاق کا حق اگر عورت کو دیا جاتاتو پھر شائد ہی زندگی بھر کا ساتھ زندگی کا ساتھ دے سکتا کیونکہ عورت کی طبیعت میں جذبات کی فراوانی اور حالات سے شدید تأثر کی جو کیفیت فطرت نے ودیعت کی ہے (اور یہی اس کی طبیعت کا حسن بھی ہے) اس کے پیش نظر بہت امکان تھا کہ وہ اس تعلق کو توڑنے میں ہمیشہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتی اور معمولی اختلافات میں بھی صبر و تحمل کو بھی ہاتھ سے چھوڑدیتی۔ مرد کو یہ اختیار آخری چارہ کے طور پر دیا گیا ہے ورنہ ہمارا پروردگار طلاق کو ہرگز پسند نہیں فرماٹا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : اَبغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ (اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) مزید ارشاد فرمایا : تَزَوَّجُوْاوَلَا تُطَلِّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذَّوَّاقَات (شادیاں کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ مزے چکھنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا) اگر طلاق کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رہے تو پھر بھی شریعت ہدایت کرتی ہے کہ زندگی بھر کا یہ تعلق یک لخت نہ توڑ ڈالو بلکہ ایک ایک مہینے کے فاصلے سے ایک ایک طلاق دو ۔ تیسرے مہینے کے اختتام تک تم کو سوچنے سمجھے کا موقعہ حاصل رہے گا۔ ممکن ہے اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے یا عورت کے رویہ میں کوئی صحت مندتغیر واقع ہوجائے یا خود تمہارا دل ہی بدل جائے۔ البتہ ! اگر اس مہلت میں سوچنے اور سمجھنے کے باوجود تمہارا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو چھوڑ دینا چاہیے تو پھر چاہو تو تیسرے مہینے کے ختم پر آخری طلاق دے دو ورنہ رجوع کیے بغیر یونہی عدت گزر جانے دو بلکہ احسن طریقہ یہ ہے کہ تیسری مرتبہ طلاق نہ دی جائے بلکہ یونہی عدت گزرجانے دی جائے۔ اس صورت میں یہ موقعہ باقی رہتا ہے کہ اگر یہ زوجین باہم نکاح کرنا چاہیں تو دوبارہ ان کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن تیسری بار طلاق دینے سے طلاق مغلظ ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد تحلیل کے بغیر زن وشوہر کا ایک دوسرے سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ افسوس یہ ہے کہ لوگ بالعموم اس مسئلے سے ناواقف ہیں اور جب طلاق دینے پر آتے ہیں تو چھوٹتے ہی تین طلاق دے ڈالتے ہیں بعد میں پچھتاتے ہیں اور مفتیوں سے مسئلے پوچھتے پھرتے ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ مرد کا ناگزیر حالات میں طلاق کا اختیار دیا گیا ہے لیکن شریعت کا حقیقی منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں بھی جہاں نصیحت، ہجرفی المضاجع اور ضرب وتعزیر جیسی تدابیر بھی ناکام ہوجائیں اور نظر بہ ظاہر طلاق کے سوا کوئی صورت نظر نہ آتی ہو وہاں بھی وہ اصلاح احوال کے لیے ایک اجتماعی کوشش کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
Top