Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 37
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًاۚ
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَبْخَلُوْنَ
: بخل کرتے ہیں
وَيَاْمُرُوْنَ
: اور حکم کرتے (سکھاتے) ہیں
النَّاسَ
: لوگ (جمع)
بِالْبُخْلِ
: بخل
وَيَكْتُمُوْنَ
: اور چھپاتے ہیں
مَآ
: جو
اٰتٰىھُمُ
: انہیں دیا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ
: سے
فَضْلِهٖ
: اپنا فضل
وَاَعْتَدْنَا
: اور ہم نے تیار کر رکھا ہے
لِلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
عَذَابًا
: عذاب
مُّهِيْنًا
: ذلت والا
جو خود بھی بخل کرتے اور لوگوں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس کو چھپاتے ہیں۔ ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْـبُخْلِ وَیَـکْتُمُوْنَ مَـآاٰ تٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاَعْتَدْنَا لِلْـکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا ج (جو خود بھی بخل کرتے اور لوگوں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس کو چھپاتے ہیں۔ ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کررکھا ہے) (النسآء : 37) ایک مومن بخیل نہیں ہوتا 1 اکڑنے والے اور تکبر کرنے والوں میں تکبر کے باعث جو مذموم خصوصیات پیدا ہوتی ہیں ان میں پہلی خصوصیت بخل کرنا ہے اسلامی زندگی میں بخل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ دو عادتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہوتیں ” بخل اور بد اخلاقی “۔ جس طرح اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی بداخلاقی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرے میں باہمی تعلقات میں بخل نہایت قابل نفرت چیز ہے کیونکہ بخل بجائے خود کوئی بیماری نہیں وہ انسان کے اس بگاڑ کا اظہار ہے جس کی جڑیں اس کے دل و دماغ میں ہیں۔ آدمی جب یہ سمجھتا ہے کہ میں نے جو کچھ کمایا ہے یہ میری دماغی صلاحیت اور دست وبازو کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے بجا طور پر مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں اپنی ذات کے سوا کہیں اور خرچ نہ کروں اور اسے سینت سینت کر رکھوں تاکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے۔ یہ وہ قارونی ذہنیت ہے جس کے پیدا ہوجانے کے بعد اللہ سے تعلق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے اور اپنی ذاتی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ یہی اعتماد ہے جو جب تکبر کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو پھر اس کی نگاہوں میں انسانی رشتے قابل لحاظ نہیں رہتے۔ وہ اپنی ذات کے گنبد میں ایسا اسیر ہوتا ہے کہ اسے اپنی ذات کے باہر نہ تو کوئی رشتہ نظر آتا ہے نہ کوئی ضرورت نظر آتی ہے، حتی کہ ہمدردی اور خیرخواہی جیسے الفاظ اس کے نزدیک بےمعنی ہوجاتے ہیں۔ اللہ سے مانگنے کا تصور بھی اس کے دل و دماغ سے نکل جاتا ہے۔ اسلام کے تمام تصورات کی اساس توحید ہے جس ذہنیت سے اس بنیادی اساس کو نقصان پہنچتاہو۔ اس کے بارے میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کی نگاہ میں کس قدر مبغوض ہوگی۔ ایسی ذہنیت والے آدمی کو آپ اللہ کا نام لے کر یا انسانیت کا نام لے کر کسی بھلائی کے لیے آمادہ نہیں کرسکتے۔ وہ ایک طرف اگر اللہ کی ذات سے کٹ جاتا ہے تو دوسری طرف انسانیت سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ صرف لکشمی دیوی کی پوجا کرتا ہے اور یہ دھن کی محبت اس کی پوری ذات کا اس طرح احاطہ کرلیتی ہے کہ وہ انسانیت کی بڑی سے بڑی ضرورت اور اخلاق کی بڑی سے بڑی قدر کو بھی ہمیشہ درہم ودینا رکے ترازو میں تولتا ہے۔ وہ ہر بھلائی کے تصور سے کٹ کر دولت کے تصور سے اس طرح جڑ جاتا ہے کہ معدہ ہی اس کا مطاف ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر معاملے پر جب بھی غور کرے گا دولت دنیا کے حوالے سے غور کرے گا۔ اس کی تمام ترجیحات دولت کے کم وبیش ہونے سے وابستہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بخیل کس شخص کو کہتے ہیں ؟ لیکن یہ بات ذہن میں رکھئے کہ بخیل اس آدمی کو نہیں کہتے جو اپنی ذات پر خرچ کرنا پسند نہ کرتاہو بلکہ بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں تنگ دل ہو اور کسی بھی خیر کے موقعہ پر اس کا ہاتھ کھلنے کی بجائے گردن سے حمائل ہوجاتاہو۔ اگرچہ اسلام نے دولت اور نعمت کے ہوتے ہوئے اپنی ذات پر بےجا سختی کرنے سے بھی منع کیا ہے۔ جس شخص کو اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن، اپنے لباس اور میل جول سے اس کا اظہار بھی کرے۔ لیکن اگر کوئی آدمی اپنے آپ کو بہت سادہ رکھ کر سب کچھ اللہ کے راستے میں یا اللہ کے بندوں پر خرچ کردیتا ہے تو اسے بخل نہیں کہتے اور نہ یہ اللہ کے نزدیک مذموم ہے بلکہ اگر اس سے کسی غلط فہمی کا اندیشہ نہ ہو تو اسے محمود ہی کہا جائے گا۔ بالخصوص وہ لوگ جو تخت اقتدار پر فائز ہوں یا بڑے عہدہ و منصب کے مالک ہوں یا امیر کبیر ہونے کی شہرت رکھتے ہوں تو ایسے لوگوں کی سادگی اور اپنے آپ پر کم سے کم خرچ کرنے کی عادت نہ صرف کہ کوئی برائی نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک بھی باعث ِ اجر ہے اور بندوں کی نگاہ میں بھی مادہ اور مادی زندگی کو حقیر جاننے کی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ جس کے اثرات ہمیشہ دیکھنے والوں پر اچھے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ خلفائے راشدین کا نہایت سادہ زندگی گزارنا، موٹا جھوٹا کھانا، پیوند زدہ کپڑے پہننا، آج تک ایک قابل تعریف عمل کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ہماری قریبی تاریخ میں آخری نظام حیدرآباد دکن اپنے سیاسی فیصلوں کے علاوہ اپنی اس خوبی کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے کہ انھوں نے بڑی بڑی مساجد اور بڑے بڑے اداروں کو دل کھول کر سرمایہ فراہم کیا لیکن ان کا اپنا لباس اور اپنی ضرورت کی چیزیں ایک عام آدمی کی سطح سے زیادہ نہیں تھیں۔ ہماری قریبی تاریخ میں ایک مشہور سرجن گزرے ہیں جو ڈاکڑ امیرالدین مرحوم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں ایک دفعہ جب ان کے داماد نے بتایا کہ اگر ایک اے۔ سی (A.C.) بند کردیا جائے تو کئی غریب گھروں کو بجلی مل سکتی ہے۔ تو وہ اپنی کرسی سے اٹھے اور انھوں نے اے۔ سی بند کردیا۔ اس کے بعد برسوں زندہ رہے لیکن پھر کبھی اے۔ سی نہیں چلایا۔ انھیں جب بھی توجہ دلائی جاتی کہ گرمی بہت ہے آپ اے۔ سی چلانے کی اجازت دے دیں تو وہ ہمیشہ اپنے داماد کی بات دہراتے۔ اس طرح کی بیشمار مثالیں آپ اپنے گردوپیش میں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن بخل میں جو چیز نہایت قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسروں کے حقوق فیاضی اور کشادہ دلی سے ادا کرتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ اپنی کوتاہی کے مطابق بخیل کہا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی عادت بد کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لیے بارہا بخل کی مذمت فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ہر صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہتا ہے اے اللہ ! بھلائی کے راستہ میں خرچ کرنے والے کو اچھا عوض عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ ! بخیل کو تباہی سے ہمکنار کر۔ (بخاری و مسلم) آنحضرت ﷺ نے حضرت اسماء ( رض) سے فرمایا : بھلائی کے راستے میں خرچ کیا کر اور گن گن کر نہ دیاکرورنہ اللہ بھی تمہارے حق میں گننا شروع کردے گا۔ بخل معلوم ہوتا ہے ایک حالت پر اکتفا کرنے والی بیماری نہیں بلکہ اس کی نئی نئی شاخیں پھوٹتی ہیں اور سرطان کی طرح یہ ناسور پھیلتا جاتا ہے۔ چناچہ اس سے جو دوسری برائی جنم لیتی ہے۔ 2 اس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا : وَیَامُرُوْنَ النَّاسَ بِالْـبُخْلِ ” وہ لوگوں کو بخل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں “۔ یعنی ان کی عادت بد اپنے بخل کی حد تک قناعت نہیں کرتی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی بخل کریں تاکہ ان کے بخل پر پردہ پڑا رہے۔ ایک آدمی جب دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ اپنے عزیزوں اور اپنے ملنے والوں سے بھی چاہتا ہے کہ وہ بھی دوسروں کے حقوق دبائے رکھیں کیونکہ جب اس کے گردوپیش میں ایک ہی طرح کی ذہنیت کے لوگ ہوں گے تو کوئی اس کی طرف انگلی نہیں اٹھائے گا کیونکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ افراد کے ضمیر تو سوجاتے ہیں اجتماعی زندگی کا ضمیر نہیں مرتا۔ ان میں کچھ نہ کچھ ایسے رہتے ہیں جو برائی سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور برائی کرنے والوں کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں۔ سخاوت اور بخل کا تعلق چونکہ عام انسانی معاملات سے ہے جس طرح سخاوت نیک نامی کا باعث بنتی ہے اسی طرح بخل سے بدنامی پھیلتی ہے اور کبھی نہ کبھی بخیل کو اس بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بخیل کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گردوپیش میں رہنے والے لوگوں میں اپنی ذہنیت پیدا کردے تاکہ اسے کبھی اس صورتحال سے واسطہ نہ پڑے۔ یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس کا تعلق عموماً ان لوگوں سے ہے جنھیں مال و دولت سے اس حد تک محبت ہوجاتی ہے کہ باقی تمام وابستگیاں اور محبتیں انسانی رشتے اور اخلاقی قدریں ان کے سامنے ماند پڑجاتی ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مال و دولت کی محبت کے ساتھ ساتھ بعض خانہ ساز قسم کے نظریات یا باطل قوتوں کے ساتھ دل و دماغ کے ایسے رشتے وابستہ ہوجاتے ہیں کہ پھر آدمی مال و دولت کے ساتھ ساتھ ان رشتوں اور وابستگیوں کے حوالے سے بھی دیکھتا ہے۔ چناچہ اس کی سب سے واضح مثال قرآن کریم میں منافقین کا وہ رویہ ہے جس کا ذکر پروردگار نے ” سورة المنافقون “ میں فرمایا ہے۔ ایک غزوہ میں حضرت عمر فاروق ( رض) کے ملازم اور ایک انصاری کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا دونوں نے اپنے اپنے حمائیتیوں کو پکارا۔ آنحضرت ﷺ بروقت پہنچ گئے اور لڑائی کا خطرہ ٹل گیا آپ نے اس پر برہمی کا اظہار فرمایا اور اصلاح کے لیے نصیحتیں فرمائیں۔ لیکن منافقین جو اس غزوہ میں مسلمانوں کے ساتھ تھے ان کے رئیس عبداللہ بن ابی کو جیسے ہی ان کے ساتھ تخلیہ میں بیٹھنے کا موقعہ ملا تو اس نے کہا یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ تم نے ان مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دی او اپنے گھر ان کے لیے کھول دیئے، اب وہ تمہیں ہی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کتے کو کھلائو پلائو کہ وہ تمہیں پر بھونکے۔ آنحضرت ﷺ کو اس کی اس یا وہ گوئی کی اطلاع دی گئی۔ آپ نے اسے بلا کر پوچھاتو صاف مکر گیا۔ ” سورة المنافقون “ نے نازل ہو کر ان کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا۔ چناچہ جو کچھ انھوں نے کہا ان میں سے ایک بات کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا : ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَرَسُوْلِ اللّٰہِ حَتٰٓی یَنْفَضُّوْا (یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو لوگ ہیں ان پر مت خرچ کروتا کہ یہ لوگ چلتے بنیں۔ ) ان الفاظ پر غور کیجیے ! یہ ایک اجتماعی بخل کی مثال ہے اور جس کے پیچھے صرف مال و دولت کی محبت کارفرما نہیں بلکہ منافقت کے جذبات، باطل سے گہرا تعلق اور اسلام دشمنی بھی اپنا کام دکھارہی ہے۔ یہ بخل کی بدترین مثال ہے اس کے آئینہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بخل کا حکم دینا یا بخل کا مشورہ دینا کسے کہتے ہیں ورنہ آدمی یہ الفاظ پڑھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ اپنے مال و دولت کے معاملے میں بخیل ہوتے ہیں لیکن وہ دوسروں کو اس کا حکم دیتے ہیں یا مشورہ دیتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس مثال سے اسے بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں ہماری قریبی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود رہی ہیں۔ روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو تیس لاکھ کے قریب مہاجرین ہمارے ملک میں آگئے۔ انھوں نے ایک اسلامی ملک میں اپنی جانیں اور عزتیں بچانے کے لیے پناہ لی۔ اہل پاکستان کے لیے لازم ہوگیا کہ وہ ان مہاجرین کے لیے انصار کا کردار ادا کریں۔ لیکن آپ اخباروں کے فائل اٹھاکردیکھیں آپ کو ایسے مضامین کی بڑی تعداد ملے گی جس میں ان مہاجرین پر خرچ کرنے سے روکا گیا ہے اور باربار ملکی وسائل کی کمی کا حوالہ دیا گیا ہے حالانکہ اصل حقیقت بائیں بازو سے تعلق لادینی قوتوں کی ایجنٹی اور اسلامی اخوت سے دشمنی تھی۔ اس لیے کیسے کیسے دانشور اپنی حکومت کو بخل کے مشورے دے رہے تھے۔ گزشتہ دو سال سے امریکہ نے اسلامی ملکوں میں جو حالات پیدا کردیئے ہیں اور جس نے دو مسلمان ملکوں کو ادھیڑ کدھیڑ کر رکھ دیا ہے اسلامی رشتے کے حوالے سے ہمارا فرض تو یہ تھا کہ ہم اسلام کے رشتے سے ہر طرح کے مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دیتے ان کی جانیں اور عزتیں بچاتے اور ان کے لیے انصار ہونے کا ثبوت دیتے۔ لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نہ صرف کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے جانی دشمن ہوگئے ہیں بلکہ جہاں جہاں بھی خیر کے مراکز ہیں جہاں سے اسلام کو کسی طرح بھی سپورٹ (Support) مل رہی ہے، ہمیں باہر اور اندر سے یہ مشورے دیئے جارہے ہیں کہ آپ ایسے تمام مراکز اور اداروں کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں اور اگر آپ ایسانھیں کریں گے تو آپ کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ میں حیران ہوں کہ قرآن کریم کے یہ الفاظ جو کل تک ہمارے لیے ناقابلِ فہم تھے آج ایک حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ منافقت نے آج تک کبھی اتنی صراحت اور جرأت کے ساتھ گھونگھٹ نہیں الٹا ہوگا۔ ایک عرصہ دراز سے غیرمسلم قوتیں مسلمانوں کے ساتھ منافقت کا کھیل کھیل رہی تھیں اور خود مسلمانوں کے اندر چھپے ہوئے منافق پانچویں کلام کا کردار ادا کررہے تھے۔ لیکن اب انھوں نے براہ راست مسلمانوں کی زندگی کے سرچشموں پر حملہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے امت مسلمہ کی اکثریت کو اصل مقصد اور اصل اہداف سے دور کرچکے ہیں۔ لیکن ایک محدود اقلیت ابھی تک دینی مدارس میں پڑھ رہی ہے اور ابھی مسلمانوں میں اس کے اثرات باقی ہیں۔ ان کی مساجد کو وہیں سے کارکن میسر آتے ہیں۔ ان کی دینی زندگی کی راہنمائی وہیں سے ہوتی ہے۔ وہاں سے نکلنے والے اپنی دنیا برباد کرکے دین کی آبادی کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ انھیں کے دم سے نوجوانوں میں روح محمد ﷺ باقی ہے اور انھیں کی وجہ سے غیرت دینی کو ابھی تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ ایک طرف تو دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان پر ہاتھ ڈالنے کا راستہ نکالا اور دوسری طرف علم دین کے سرچشموں کو خشک کرنے کے لیے دولت مندوں کو حکم دیا کہ ان اداروں کو امداد دینا بند کردیں۔ ملک میں اگر کپڑے کی قلت پیدا کرنی ہو تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ کپڑا جلانا شروع کردیا جائے بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی کپڑے کی صنعت اور کپڑے کا خام مال دستیاب ہوتا ہے اسے برباد کردو۔ دینی مدارس علم دین کی فیکٹریاں ہیں، یہاں سے علم دین بھی پر وڈیوس Produce ہوتا ہے اور رجالِ دین بھی۔ اگر انھیں وسائل سے تہی دامن کردیا جائے تو یہ خود بخود بند ہوجائیں گی اور رفتہ رفتہ نتیجہ یہ ہوگا کہ دین کے پڑھنے پڑھانے والے ختم ہوجائیں گے۔ کاش ! ہمیں اندازہ ہوتا کہ یہ کتنا بڑا خطرناک اقدام ہے جو غیر مسلم قوتوں اور اپنے ملک کے منافقین کی طرف سے ہورہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے سب سے پہلے اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صفہ کا ایک چبوترا بنایا جس میں رات دن قران وسنت کا علم حاصل کرنے والے پڑے رہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ جہاں ان کی تربیت فرماتے تھے وہیں ان کی ساری ضروریات کے کفیل بھی تھے۔ پہلے آپ ان کی ضروریات کا انتظام فرماتے بعد میں اپنے گھر کی خبرلیتے۔ آنحضرت ﷺ کی نگاہ میں ان لوگوں کی کس قدر اہمیت تھی اور آپ کے دل میں ان کے لیے کس قدر شفقت تھی اس کا اندازہ آپ اس سے کرلیجیے کہ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہمارے پاس آکر اس حال میں لیٹ گئے کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو نیند نہیں آرہی تھی اور ہمارا حال بھی ابتر تھا۔ اتنے میں ایک شخص دودھ کا ایک بڑاپیالہ لے کر آیا کہا مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب حضور مجھے بھی اس میں سے حصہ عطا فرمائیں گے۔ لیکن آپ نے مجھے ہی حکم دیا کہ جاؤ جاکر تمام اصحابِ صفہ کو بلالائو۔ اس وقت ان کی تعدادستر کے قریب تھی۔ وہ سب آگئے تو مجھے خیال ہوا کہ شاید حضور سب سے پہلے مجھے ہی پینے کا حکم دیں۔ لیکن اس وقت تو میری مایوسی کی کوئی انتہانہ رہی جب آپ نے فرمایا کہ ابوہریرہ ان سب کو باری باری پلائو۔ میں نے ان کو پلانا شروع کیا تو ستر افراد ایک ایک کرکے سیرہوکر پی گئے لیکن پیالہ ویسے کا ویسے بھرارہا۔ اب حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ابوہریرہ تم پیو، میں نے سیر ہو کر پیا۔ حضور ﷺ نے پھر حکم دیا اور پیو، میں نے اور پیا۔ آپ نے مزید پینے کے لیے فرمایا لیکن اب میرے پیٹ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے پیا تو پیالہ ختم ہوگیا۔ اندازہ فرمائیے ! جن لوگوں کا بچا ہوا اور جھوٹا سرکار رسالت مآب ﷺ پیتے ہیں اب انھیں کے راستے پر چلنے والوں اور انھیں کی سنت زندہ کرنے والوں کے لیے احکام جاری کیے جارہے ہیں کہ ان کا ناطقہ بند کردو، ان کے ذرائع کی تلاشی لو۔ مقصود صرف یہ ہے کہ علم کے یہ سوتے خشک ہوجائیں۔ یہ بخل کا حکم دینے کی بدترین مثال ہے۔ وَیَکْتُمُوْنَ مَـآاٰ تٰـھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (اور اللہ نے اپنے فضل میں سے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں ) 3 یہ ان متکبروں اور خودپسندوں میں پیدا ہونے والی تیسری بری خصوصیت ہے جو درحقیقت بخل ہی کی ایک صورت ہے کہ ایسے لوگ جب لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بخل سے کام لیتے ہیں اور اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ گردوپیش میں کوئی ان کو ملامت کرنے والانہ رہے۔ لیکن آخری کوشش ان کی یہ ہوتی ہے کہ ان کی دولت کی خبر کسی شخص تک نہ پہنچنے پائے۔ لوگ انھیں ایک دولت مند آدمی ضرور سمجھیں تاکہ ان کا ایک رعب بھی باقی رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی یقین رکھیں کہ یہ شخص سب کچھ رکھتا ہوا بھی اس قدر مجبو رہے کہ کسی دوسرے کی مدد کرنے کے قابل نہیں کیونکہ ایسے لوگ ہر ملنے جلنے والے اور ہر مدد کے خواہش مند کے سامنے اپنے وسیع اخراجات، کاروبار میں نقصانات، اپنی پھیلی ہوئی ذمہ داریوں اور سائلوں کی کثرت کا اس طرح دکھڑاروتے ہیں کہ سننے والا یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ شخص ہے تو بڑا دریا دل اور بڑا فیاض لیکن ذمہ داریوں کے بوجھ نے اس کا ہاتھ روک رکھا ہے چونکہ اس کے پاس بچتاکچھ نہیں اس لیے وہ کسی کی مدد کرنے کے قابل نہیں۔ اپنے مال و دولت کو چھپانابعض لوگوں کے یہاں ایک اور طریقے سے بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، لباس، سواری اور گھر رکھنے کے معاملے میں اس طرح کارویہ اختیار رکھتے ہیں کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ نہایت خستہ حال لوگ ہیں وہ نہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں گے، نہ لوگوں کی مدد کریں گے، نہ نیک کاموں میں حصہ لیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے ایسے لوگوں کو بھی تنبیہ فرمائی۔ آپ نے فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ اِذَا اَنْعَمَ نِعْمَۃً عَلٰی عَبْدٍ اَحَبَّ اَنْ یَّظْہَرَ اَثْرُھَا (اللہ جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہرہو) ۔ یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن اور اس کی داد ودہش ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اظہار ہو۔ وَاَعْتَدْنَا لِلْـکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا (ایسے کافروں کے لیے ہم نے رسواکن عذاب تیار کررکھا ہے) ایسے بخیل لوگ جو خودبھی اپنے خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ جائیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تلقین کریں اور اپنی دولت کو ہوا تک نہ لگنے دیں قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس لیے رسواکن عذاب دیں گے کیونکہ انھوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ پہچانی اس کے شکر گزار بندے بننے کی بجائے اترانے والے اور تکبر کرنے والے بنے۔ انھوں نے اپنی دولت سے عیاشیاں کیں لیکن انسانیت ان کے سامنے ذلیل ہوتی رہی۔ اب ان کی سزا صرف عذاب ہی نہیں بلکہ رسوائی بھی ہونی چاہیے تاکہ یہ پوری طرح اپنے انجام کو پہنچیں۔
Top