Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 46
مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اسْمَعْ وَ انْظُرْنَا لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَقْوَمَ١ۙ وَ لٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا
مِنَ
: سے (بعض)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
ھَادُوْا
: یہودی ہیں
يُحَرِّفُوْنَ
: تحریف کرتے ہیں (بدل دیتے ہیں)
الْكَلِمَ
: کلمات
عَنْ
: سے
مَّوَاضِعِهٖ
: اس کی جگہ
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
سَمِعْنَا
: ہم نے سنا
وَعَصَيْنَا
: اور ہم نے نافرمانی کی
وَاسْمَعْ
: اور سنو
غَيْرَ
: نہ
مُسْمَعٍ
: سنوایا جائے
وَّرَاعِنَا
: اور راعنا
لَيًّۢا
: موڑ کر
بِاَلْسِنَتِهِمْ
: اپنی زبانوں کو
وَطَعْنًا
: طعنہ کی نیت سے
فِي الدِّيْنِ
: دین میں
وَلَوْ
: اور اگر
اَنَّھُمْ
: وہ
قَالُوْا
: کہتے
سَمِعْنَا
: ہم نے سنا
وَاَطَعْنَا
: اور ہم نے اطاعت کی
وَاسْمَعْ
: اور سنیے
وَانْظُرْنَا
: اور ہم پر نظر کیجئے
لَكَانَ
: تو ہوتا
خَيْرًا
: بہتر
لَّھُمْ
: ان کے لیے
وَاَقْوَمَ
: اور زیادہ درست
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
لَّعَنَھُمُ
: ان پر لعنت کی
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُفْرِهِمْ
: ان کے کفر کے سبب
فَلَا يُؤْمِنُوْنَ
: پس ایمان نہیں لاتے
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلًا
: تھوڑے
یہود میں سے ایک گروہ زبان کو تروڑ مروڑ کر اور دین پر طعن کرتے ہوئے الفاظ کو ان کے موقع ومحل سے ہٹا دیتا ہے اور سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا کہتا ہے اور اگر وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ” اِسْمَعْ “ اور انْظُرْنَا کہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات برمحل ہوتی۔ لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کردی ہے اس وجہ سے وہ شاذ ہی ایمان لائیں گے
مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْـکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَـیًّا م بِاَلْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ط وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَـکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ لا وَلٰـکِنْ لَّعَنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلاً (یہود میں سے ایک گروہ زبان کو تروڑ مروڑ کر اور دین پر طعن کرتے ہوئے الفاظ کو ان کے موقع ومحل سے ہٹا دیتا ہے اور سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا کہتا ہے اور اگر وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، اِسْمَعْ اور انْظُرْنَاکہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات برمحل ہوتی۔ لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کردی ہے اس وجہ سے وہ شاذ ہی ایمان لائیں گے) (النسآء : 46) رسولوں کی عزت و حرمت اور اللہ کی غیرت گزشتہ آیت کریمہ میں پروردگار نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن اس میں گھبرانے کی بات نہیں تمہارے سر پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے وہ تمہارا ولی بھی ہے نصیر بھی۔ اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہوئے سب سے پہلے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہود کے مختلف گروہ تھے اور ان کی گمراہیاں اور ان کی خباثتیں قدر مشترک رکھتے ہوئے الگ الگ بھی تھیں۔ ان میں سے وہ گروہ جو آنحضرت ﷺ کی مجلسِ مبارک میں آتا جاتا تھا۔ وہ جس طرح زبان آوری کے پردے میں اور الفاظ کا چکمہ دے کر اور لہجہ اور پیرایہ بدل کر اپنی خباثتِ نفس کا اظہار کرتا اور اس طرح سے آنحضرت ﷺ کے مقام و مرتبہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تھا۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں ان کا چہرہ بےنقاب کیا ہے۔ مسلمان چونکہ اپنی شرافتِ نفس سے ان کے باقاعدہ آنحضرت کی مجالس میں آنے کے باعث خوش فہمی کا شکار تھے اور اگر کوئی بات کھٹکتی بھی تھی تو خود ہی اس کی تاویل بھی کرلیتے تھے اور یا ان کی طرف سے تاویلات پر اعتماد کرلیتے تھے۔ آنحضرت ﷺ جو ان باتوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے کیونکہ آپ کی ذہانت اور ژرف نگاہی کے ساتھ ساتھ نبوت کا نو ربھی کارفرما تھا آپ کو یقینا معلوم تھا کہ وہ دبی دبی زبان میں کیا حرکتیں کرتے ہیں۔ لیکن آپ اپنے علومرتبت، کرامتِ نفس اور اعلیٰ اخلاقی تحمل کے باعث ان کی باتوں کانوٹس لینے پر بھی تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ مسلسل نظر انداز فرما رہے تھے پروردگار نے اپنے علم کامل کی وجہ سے ایک تو ان کی نام نہاد شرافت کا پردہ چاک کیا اور دوسرا اپنے ولی اور نصیر ہونے کا اس طرح ثبوت دیا کہ ان کی ان خباثتوں پر گرفت فرمائی جن سے حضور برابرغض بصر سے کام لے رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی عزت و حرمت کے معاملے میں نہایت متحمل ثابت ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے اپنی ذات کا انتقام کبھی کسی سے نہیں لیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہاں اس کے پیغمبر خاموش رہتے ہیں وہ خود مداخلت فرما کر پیغمبر کی عزت کی حفاظت فرماتا ہے۔ اور ان لوگوں پر لعنت فرماتا ہے جو اللہ کے نبی کی عزت کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جگہ میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤذُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَـہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ” جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں جیسے یہود اپنی زبانی خباثت سے پہنچاتے تھے اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے “۔ چناچہ یہاں بھی اللہ کی غیرت وحمیت اپنا کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہود کی قومی شخصیت کی شناخت دوسری بات جو اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے جیسے آدمی اس آیت پر غور کرتا ہے ویسے ویسے اس کے سامنے یہود کی قومی شخصیت کی تہیں کھلتی جاتی ہیں۔ اندازہ فرمائیے ! یہود مدینے کا وہ گروہ ہے جو مدینہ کو Dominate کررہا ہے۔ وہ مالی اعتبار سے مدینہ کی ساری آبادی پرچھایا ہوا ہے۔ بازاروں پر اس کا تسلط ہے، کاروبار اس کے ہاتھ میں ہے، بہت سے باغات اس کے قبضے میں ہیں، اہل کتاب ہونے کی وجہ سے عرب قبائل پر اس کا علمی رعب ہے، ان میں بڑے بڑے علما اور مشائخ ایسے موجود ہیں جن کی علمی وجاہت بھی مسلم ہے اور بزرگی کی دھوم بھی ہے۔ ان کے اپنے تعلیمی ادارے ” مِدراس “ کے نام سے جابجا کام کررہے ہیں، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھیں دنیوی وجاہت بھی حاصل ہے اور دینی عزت اور حرمت بھی۔ ایسے گروہ سے جن کا پس منظر کتاب سے رشتہ اور پیغمبروں سے انتساب ہے کسی طرح بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اللہ کے آخری پیغمبر کی مجلس میں جسے وہ اپنی کتابوں کی گواہی کی وجہ سے اچھی طرح پہچانتے بھی ہیں کمینی حرکتوں کا ارتکاب کریں گے۔ دنیوی اعتبار سے مہذب اور تعلیم یافتہ آدمی کسی بھی بڑے آدمی کی مجلس میں جائے اور وہ ہرچند اس سے ہزار اختلاف رکھتاہو لیکن وہ کبھی بھی یہ حرکت نہیں کرے گا کہ باتوں باتوں میں الفاظ بگاڑ کریالہجہ بدل کر اس کی توہین کرنے کی کوشش کرے یا اس کے پیروکاروں کو اس سے گمراہ کرنے اور دور کرنے کی سعی کرے۔ ہاں ! وہ شخص کہ تہذیب اور تعلیم جس کے پاس نہیں پھٹکی اور وہ اپنے معاشرے کا ایک آوارہ اور بدچلن آدمی ہے اس سے آپ یہ ضرور توقع کرسکتے ہیں کہ وہ جہاں بھی جائے گا ایسی حرکت ضرور کرے گایا اس طرح کی گری ہوئی حرکتیں وہ شخص یا وہ گروہ کرسکتا ہے جو اپنی خود ساختہ عصبیتوں میں اندھا ہوچکاہو۔ ان باتوں کوا گر ذہن میں رکھیں تو یہود کے بارے میں یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ لوگ بیشک دنیوی وجاہت کے مالک تھے اور اپنے پاس علم بھی رکھتے تھے باایں ہمہ ! اخلاقی قدروں سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا اور وہ اپنے تعصبات کا اس بری طرح شکار تھے کہ ان کے لیے بری سے بری حرکت کرنا بھی کوئی مشکل بات نہ تھی۔ یہ ان کی ایسی قومی خصلت ہے جس نے آج تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبیوں کی توہین کرنا اپنے مخالف کے حوالے سے ہر کمینی حرکت کرگزرنا اور ہمیشہ کسی نہ کسی سازش میں لگے رہنا، یہ ان کی وہ شناخت ہے جس سے وہ اپنی تاریخ کے اولین عہد میں بھی پہچانے جاتے تھے اور ہر دور میں برابراس کے شواہد ملتے ہیں اور آج کے دور میں بھی، جب کہ تہذیب اور مجلسی آداب کو ترقی کرنے کا بہت زعم ہے، ان کے اندر اپنی اس شناخت کے اعتبار سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ پیغمبروں کی توہین یہود کے ملی مقاصد میں شامل ہے میں آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ایک اور حقیقت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ کے نبیوں اور اس کے نیک بندوں سے طبعی تنفر، ان کی توہین کرنے کی کوشش اور دنیا میں ہر خیر کے سرچشمے کو ناکام کردینے کا جذبہ جس طرح ہم یہود میں دیکھتے ہیں اسی طرح عیسائیت میں بھی نظر آتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہنا چاہیے کہ یہ خصائلِ بد یہودیت کی شناخت نہیں بلکہ یہ کفر کے آثار ہیں۔ جو ہمیں یہود میں بھی نظر آتے ہیں اور عیسائیوں میں بھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انھیں باربار اس بات سے تشویش لاحق ہوتی ہے اور وہ اسے بدلنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں کہ پاکستان میں پیغمبروں کی عزت کے تحفظ کا جو قانون بن چکا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ختم کیا جائے۔ انھیں کے زیر اثر ہمارے وہ دانشور اور وہ حکمران جو سراسر مغرب کے پروردہ ہیں اور امریکہ کے زلہ خوار ہیں وہ بھی انھیں کی جگالی کرنے لگتے ہیں حالانکہ نہایت سادہ سی بات ہے کہ ہم اگر اپنے رسول پاک کی عزت و حرمت پر کسی طرح کا غبارآنا بھی برداشت نہیں کرتے بلکہ ہم تمام انبیاء کرام کی عزت و حرمت کے پاسبان ہیں تو اس میں آخر ان کا کیا نقصان ہے ؟ انبیاء ورسل کی حفاظت یا ان کی عزت کرنے سے ان کا کیا بگڑجاتا ہے ؟ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں اس کی کھلی چھٹی دے دیں کہ یہ ہمارے رسول ِ پاک کے بارے میں جو چاہیں یا وہ گوئی کریں ؟ مسلمان تو اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ اس کے ایمان اور اس کی غیرت کا تقاضا ہے۔ بفرضِ محال اگر انھیں اس کی آزادی مل جائے تو انھیں اس سے آخر ملے گا کیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا قومی نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے۔ جس طرح بچھو کسی کو ڈسے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح یہ لوگ جب تک اللہ کے نبیوں کی توہین نہ کرلیں ان کے خبث باطن کو تسکین نہیں ملتی۔ عیسائی بھی یہود کے ہمنوا ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہود کی تو یہ فطرت بن چکی ہے لیکن عیسائی اس معاملے میں ان کے ہمنوا کیوں ہیں ؟ جس آدمی کی نظرعیسائیت کی تاریخ پر ہو اس کے لیے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) پر بڑی محدود تعداد میں لوگ ایمان لائے۔ آپ نے اپنے بارہ حواریوں کو دینی ذمہ داریاں سونپیں۔ یہی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی علمی اور دینی وارثت کے امین اور جانشین ٹھہرے۔ لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کے اٹھائے جانے کے بعد جس شخص نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو عیسائیت کی شکل دے دی جبکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) عیسائیت نہیں اسلام لے کر آئے تھے۔ وہ وہ تھا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں سینٹ پال کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ ایک یہودی عالم تھا اور اپنے مذہبی خیالات میں نہایت متعصب تھا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) جب تک دنیا میں اپنی دعوت پیش کرتے رہے اس شخص نے اس دعوت کو ناکام کرنے کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کی سب سے زیادہ مخالفت کی۔ لیکن جیسے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھالیے گئے یا یہود اور نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق انھیں سولی پر چڑھادیا گیا تو اس کے تھوڑے عرصے بعد اس شخص نے ایک ڈھونگ رچایا کہ میں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بادلوں میں دیکھا ہے میں ان کے ہاتھ پر ایمان لے آیا ہوں اور انھوں نے مجھے اپناجانشین قرار دیا ہے چونکہ آدمی نہایت ہوشیار، پڑھالکھا اور بااثر تھا اس لیے تمام حواریوں پر غالب آگیا۔ وہ بچارے چیختے ہی رہے لیکن اس نے یہودیت ہی کو ایک نئی شکل دے کر عیسائیت کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس منظم طریقے سے اس کا پرچار کیا کہ لوگوں نے اسی کو حقیقت جانا اور بعد میں ایمان لانے والے اسی پر ایمان لاتے رہے اور حواریوں کی جو مرتب کردہ انجیلیں ان کے تصورات کے خلاف تھیں ان کو مٹادیا گیا۔ اس طرح سے یہودیت، عیسائیت کے نام پر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کے دل و دماغ میں اتار دی گئی اور آج تک عیسائی اسی عیسائیت پر چل رہے ہیں۔ لیکن یہ عیسائیت وہ مذہب یا وہ دین نہیں جسے سیدنامسیح (علیہ السلام) لے کر آئے تھے۔ ان کا عقیدہ تثلیث، ان کا کفارہ کا عقیدہ، دین ودنیا میں جدائی وغیرہ وہ تصورات ہیں جو انھوں نے یہودیت سے لیے اور بعض محققین کے مطابق ہندو مت سے لیے اور انھیں عیسائیت میں شامل کرلیا اور یہ سب کچھ ایک یہودی نے کیا جس نے عیسائی ہونے کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت میں باوجود الگ الگ مذہب ہونے کے مسلمانوں کے معاملے میں یک رنگی کیوں ہے ؟ اور کیوں اللہ کے نبیوں کے بارے میں دونوں ہی دشمنی کا رویہ رکھتے ہیں ؟ اور انھیں ایسا ہر قانون کھٹکتا ہے جس میں اللہ کے نبیوں کی عزت کا تحفظ کیا گیا ہو۔ میں نے جو بات عرض کی ہے اگر اس حقیقت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر بعض باتوں کا جواب ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مثلاً عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں کیونکہ کوئی مردان کا باپ نہیں۔ لیکن یہود ان کے نسب پر طعن کرتے ہیں اور نہ صرف کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک بےنسب آدمی سمجھتے ہیں بلکہ ان کی والدہ کو بھی نعوذباللہ من ذلکبدچلن عورت خیال کرتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا الزام اور اس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ کوئی بھی غیرت رکھنے والی قوم اس طرح کے الزام لگانے والوں سے کوئی تعلق رکھنے کی روادار نہیں ہوسکتی۔ لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ قرآن کریم جس نے آکر عیسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و حرمت واضح کی ان کو اللہ کا نبی ثابت کیا، ان کے حیرت انگیز معجزات کا ذکر کیا اور ان کی والدہ محترمہ کو عفت مآب اور صدیقہ قرار دیا۔ لیکن عیسائی مسلمانوں کے اس احسان کے باوجود جب بھی کوئی تعلق قائم کرتے اور رشتہ جوڑتے ہیں تو وہ یہود سے جوڑتے ہیں اور دونوں ملکر مسلمانوں سے دشمنی کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت اور نصرانیت اصل میں ایک ہی شجر خبیث سے نکلنے والی شاخیں ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کے اس رشتے کو سمجھیں اور اپنی خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے اس نقطے کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ یہود کی طرف سے مجلسی الفاظ کا غلط استعمال اب اس آیت کریمہ کے الفاظ کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کیجیے اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے باطنی بغض اور مخفی کینے کا اظہار کرنے میں کس چابک دستی کا ثبوت دیا تھا۔ سیدھے سادے اور معصوم مجلسی الفاظ کو اس طرح توڑمروڑ کر ادا کرتے تھے کہ سننے والا بڑی مشکل سے محسوس کرسکتا تھا کہ یہ بد باطن ان سادہ سے الفاظ سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہر زبان میں الفاظ کو اچھے یا برے مقاصد میں استعمال کرنے کے لیے نیت اور ارادہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے الفاظ نیت میں خرابی آنے کے باعث برائی کے پیغامبر بن جاتے ہیں اور نیت میں اصلاح ہونے کی وجہ سے محبت اور نیکی کی علامت ٹھہرتے ہیں۔ عربوں کی مجالس میں بولے جانے والے الفاظ ان کے روز مرہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ہر آدمی سمجھتا تھا کہ اس کا مفہوم کیا ہے۔ مثلاً جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی یا ان کا سردار چھوٹے لوگوں کو یا اپنے ماتحتوں کو کسی بات کا حکم دیتاتو سننے والے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہم اس حکم کے لیے آمادئہ عمل ہیں اور آپ ہماری اطاعت میں انشاء اللہ کوئی کمی نہیں دیکھیں گے۔ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کہتے کہ ” ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی “۔ لیکن ان بدبخت یہود نے یہ رویہ اختیار کررکھا تھا کہ جب حضور کی مجلس میں آتے تو اپنی سعادت مندی اور وفاداری کی نمائش کے لیے آگے بڑھ کر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہتے تاکہ مسلمانوں کو ان کے اخلاص کا یقین آجائے۔ لیکن اپنے خبث باطن کی تسکین کے لیے سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکی بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ لب و لہجہ کو اس طرح بدلتے کہ سننے والے کو دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا چونکہ دونوں کے حروف ہم آہنگ اور قریب المخرج ہیں اس وجہ سے اس تحریف میں ان کو کامیابی ہوجاتی۔ اسی طرح جب حضور کی مجلس میں سے کوئی صاحب آنحضرت سے کوئی بات کہنا چاہتے تو وہ کہتے اِسْمَعْ غَیْرَمُسْمَعٍ جس کا معنی یہ ہے ” آپ میری بات سنئے اور آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سنائی جاسکتی “۔ لیکن یہود جب اس جملے کو استعمال کرتے تو وہ اس سے یہ مراد لیتے کہ ” ہماری بات سنئے اور تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی کچھ سنائے “ اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ ” خدا کرے تم بہرے ہوجاؤ۔ “ بعض اہل علم نے اس کا اور مفہوم بھی بیان کیا ہے کہ اس فقرے کا لفظی معنی یہ ہے کہ ” سنئے وہ بات جو اس سے پہلے سنائی نہیں گئی۔ “ جب کسی خطیب یا متکلم کو یہ فقرہ کوئی مخاطب کہتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ نے ایک ایسی بلند بات کہی ہے جو اس سے پہلے کبھی سنائی نہیں گئی یا ایک سامع دوسرے سامع کو متوجہ کرکے یہ فقرہ بولتا اور مقصود اس کا یہ ہو تاکہ ذراغور سے اس بات کو سنیے ایسی دانشمندانہ اور حکیمانہ بات اس سے پہلے کبھی ہمارے کانوں نے نہیں سنی۔ اس طرح لوگ اپنے خطیبوں کو داد دیتے یا اپنی طرف سے قدردانی کا ثبوت دیتے اور دوسروں کے لیے اس طرح تشویق اور ترغیب کا سامان کرتے۔ لیکن یہود اسی خوبصورت جملے کو اپنی بدباطنی کے باعث لہجہ بدل کر تمسخر کے انداز میں اس طرح ادا کرتے جس کا مفہوم یہ ہوجاتا کہ ” ذراسنیے اس شخص کی بات جو پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ یعنی یہ شخص کیسی بےپر کی اڑا رہا ہے اور یہ بات اس قابل نہیں کہ اسے سنا جاسکے۔ اندازہ کیجیے کہ محض انداز اور لب و لہجہ کی تبدیلی سے کس طرح ایک معصوم لفظ کو بدباطنی کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ پروردگار نے اس پر حکم دیا کہ یہ سارا فساد چونکہ غَیْرَ مُسْمَعٍ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ بدباطن یہود اسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے آج کے بعد کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ آنحضرت کی مجلس میں غَیْرَ مُسْمَعٍ کا استعمال کرے۔ عرب اپنی مجلسوں میں جب کسی بات کو سمجھنا چاہتے یا وہ کسی بات کو پوری طرح سن نہیں پائے اور وہ اس کو دوبارہ سننا چاہتے تو وہ کہتے رَاعِنَا۔ صحابہ بھی آنحضرت کے سامنے یہ لفظ بولتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ دوبارہ ارشاد فرمادیجیے، آپ ہماری رعایت فرمائیے تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ لیکن ان بدبخت یہود نے رَاعِنَا کو زبان کے توڑمروڑ کے ذریعے سے طنز کے قالب میں ڈھال دیا۔ وہ رَاعِنَا میں ” ع “ کے کسرہ کو ذرا دبا دیتے تو یہ لفظ رَاعِینَا بن جاتا۔ جس کا معنی ہے ” ہمارا چرواہا۔ “ اتنے سے نازک فرق کو دوسرے سننے والے محسوس بھی نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن یہود اس طرح کی حرکتوں سے اپنے طور پر خوش ہوتے تھے کہ ہم نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ایک راستہ نکال لیا ہے اور اس طرح وہ اپنی بھڑاس نکالنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ پروردگار نے یہود کی اس شرارت کو روکنے کے لیے اس لفظ کو سرے سے مسلمانوں کے مجلسی الفاظ ہی سے خارج کردیا اور اس کی جگہ اُنْظُرْنَا کے استعمال کی ہدایت فرمائی۔ جس کے معنی ہیں ” ذرا ہمیں مہلت عنایت فرمائیے، ذراہم پر توجہ فرمائیے “۔ یعنی مفہوم کے لحاظ سے یہ ٹھیک ٹھیک رَاعِنَاکا قائم مقام ہے لیکن اس میں لہجہ کے بگاڑ سے غلط فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں۔ اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ اہل کتاب کا یہ گروہ اپنا علمی پس منظر رکھنے کے باعث آنحضرت کی مجلس میں جاکرجو کمینہ حرکتیں کرتا ہے اس کی ان سے ہرگز توقع نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسی حرکتیں تو معمولی آدمی بھی نہیں کرتا۔ لیکن یہ ساری حرکتیں اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کفر اور بداعمالیوں کے باعث اپنی قسمت پھوڑ لی ہے۔ پروردگار بڑے سے بڑے گناہ گاروں کو مہلت پر مہلت دیتارہتا ہے۔ لیکن جب ان کا کفر عناد میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ اپنے کفر اور گمراہی پر عصبیت کے پیکر بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبر کی عزت بھی ان کے ہاتھ سے محفوظ نہیں رہتی تو پھر اللہ کا غضب بڑھکتا ہے تو ان پر لعنت کی پھٹکار ماری جاتی ہے۔ یہ لوگ بھی چونکہ آنحضرت ﷺ کی توہین تک پہنچ گئے ہیں اور یہ طریقے طریقے سے یہ حرکت کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی پاداش میں ان پر لعنت فرمادی ہے۔ لعنت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور رحمت سے انھیں دور کرکے ان کی محرومی کا فیصلہ کردیا ہے۔ اسی لعنت کا نتیجہ دلوں پر مہر لگ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب ان لوگوں سے ایمان کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ البتہ ! ان میں ایک بہت معمولی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کفر، دشمنی اور عناد کی آخری حد تک نہیں پہنچے ان کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایمان کی دولت سے بہرہ ور فرمائیں گے۔ نبی پر طعن خود دین پر طعن ہے اس آیت کریمہ میں آپ نے دیکھا ہے کہ یہود کی تمام خباثتیں اور شرارتیں نبی کریم ﷺ کو پریشان کرنے اور ان کے مقام و مرتبہ کو ہدف بنانے کے لیے تھیں۔ لیکن قرآن کریم نے اسے طعناً فی الرسول نہیں بلکہ طعناً فی الدینکے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جس سے ایک بہت بڑی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے وہ یہ کہ نبی حقیقت میں مجسمہ دین اور مظہر شریعت ہوتا ہے۔ اس کی زبان سے اللہ کا قانون بولتا ہے، اس کے عمل سے شریعت کو عملی شکل ملتی ہے، اس کی سعی و کاوش سے دین کو غلبہ ملتا ہے، اسی کی دعوت و تبلیغ سے دین لوگوں تک پہنچتا ہے اور لوگ حلقہ بگوش دین ہوتے ہیں، اس کی ذات دین کا پیغام بھی ہے اور دین کی شناخت بھی۔ جیسے جیسے اس کی ذات سربلند ہوگی ویسے ویسے اللہ کا دین سربلند ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص اللہ کے نبی پر طعن توڑتا ہے اور اسے نشانہ بناتا ہے، وہ درحقیقت دین پر طعن کرتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظررہنی چاہیے کہ جب ہم سابقہ امتوں کی گمراہیوں کی تاریخ پڑھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی گمراہی کا آغاز اللہ کی کتاب کے مٹنے سے نہیں ہوا بلکہ سب سے پہلے اللہ کے رسول سے ان کا تعلق ٹوٹا، اس کی شخصیت سے لاتعلق ہوگئے، اس کا اسوہ اور اس کی سنت ان کی زندگیوں سے نکل گئی۔ جس کے نتیجے میں کتاب سے بھی ان کا رشتہ قائم نہ رہا، کتاب باقی رہی بھی تو انھوں نے اسے موم کی ناک بنا کر رکھ دیا۔ امت مسلمہ کو بھی اس بات کی شدید فکر کرنی چاہیے اور اس آیت کے آئینہ میں تو ان کا احساس مزید تیز ہوجانا چاہیے کہ وہ اگر مسلمان کی حیثیت سے دنیا کی قوموں میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں واقعی ایک آبرومندانہ زندگی عزیز ہے تو پھر انھیں آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی سے اپنے رشتے کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے اور ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادینا چاہیے جس کے نتیجے میں سرکارِ دوعالم ﷺ کے احترام اور محبت میں کمی آتی ہو اور یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ حضور کی عزت و حرمت کا تحفظ یقینا قوانین سے بھی ہونا چاہیے لیکن اس تحفظ کی اصل ضمانت مسلمانوں کے اس جذبے میں مضمر ہے جو جذبہ انھیں بعض دفعہ اللہ کے نبی کی عزت و حرمت کے لیے جان دینے پر اکساتا ہے۔ ظفرعلی خان مرحوم نے اپنے بڑھاپے کے دنوں میں کانپتے ہوئے لہجے میں مسلمان امت کو پیغام دیتے ہوئے فی البدیہہ شعرک ہے تھے ؎ نماز اچھی روزہ اچھا و حج اچھا زکوٰۃ اچھی مگر میں باوجود ان کے مسلماں ہو نہیں سکتا نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
Top