Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 49
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ بَلِ اللّٰهُ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُزَكُّوْنَ : پاک۔ مقدس کہتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ کو بَلِ : بلکہ اللّٰهُ : اللہ يُزَكِّيْ : مقدس بناتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان پر ظلم نہ ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ ٹھہراتے ہیں بلکہ اللہ ہی ہے جو پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ( کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ ٹھہراتے ہیں بلکہ اللہ ہی ہے جو پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا) (النسآء : 49) اہل کتاب کے شرک کی مثال اہلِ کتاب کے اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی یہ ایک مثال بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر پیدا فرمایا ہے اور ہر ایک کی نجات کے لیے ایمان وعمل کو لازم ٹھہرایا اور ایمان وعمل کی بنیاد پر ہی اس نے درجات عطا فرمائے اور انھیں دونوں کی وجہ سے قیامت کے دن جزاوسزا کا فیصلہ ہوگا۔ جو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائے گا ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور اپنے نامہ عمل کو اعمالِ صالحہ سے روشن کرے گا اور ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری میں گزارے گا تو یہ وہ شخص ہوگا جسے قیامت کے دن پاک ٹھہرایا جائے گا اور یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ اپنی پاکیزگی کے باعث اس قابل ہے کہ اسے جنت میں بھیج دیاجائے۔ لیکن جو حساب کتاب اور اعمال کے تول میں ناکام ثابت ہوا اور جس نے اپنانامہ عمل اعمال بد کی گندگیوں سے داغ دار کرلیا یا اپنے عقیدہ میں شرک کی غلاظت پیدا کرلی تو اللہ تعالیٰ اسے پاکیزہ نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ اسے گندہ اور ناپاک قرار دے کر جہنم میں پھینک دیں گے لیکن یہود نے اپنے طور پر یہ عقیدہ بنارکھا تھا کہ ہم اللہ کے چہیتے اور اس کے بیٹے ہیں۔ اس لیے ہم دوسروں سے برتر اور برگزیدہ ہیں۔ ہمارے ایمان وعمل میں چاہے کیسی خرابیاں کیوں نہ ہوں ہم چونکہ اللہ سے اور اس کے نبیوں سے انتساب رکھتے ہیں اس لیے ہماری پاکیزگی کبھی مجروح ہونے والی نہیں، ہم کیسی ہی زندگی گزاریں ہمیں جہنم کی آگ چھو بھی نہیں سکتی۔ اس طرح کے خانہ ساز تصورات کے تحت انھوں نے اپنی زندگی کو ایمان و عمل سے بالکل بےنیاز کردیا تھا بلکہ وہ بندگی کے دائرے سے نکل کر الوہیت کے زمرے میں شامل ہوگئے تھے۔ تزکیہ اور پاک ٹھہرانا یہ سراسر اللہ کی صفت ہے، لیکن وہ اسے اپنی صفت بناچکے تھے۔ دنیا میں جس طرح عزت وذلت کے فیصلے اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جزاوسزا کا فیصلہ اسی کے اختیار میں ہے لیکن انھوں نے اسے اپنے اختیار میں لے کر اپنے آپ کو اللہ کا شریک بنالیا تھا۔ ان کے اس رویے کو شرک کی مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی شرک کی تصویر بن گئی تھی۔ آیت کے آخر میں ایک نہایت نازک بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ کہ یہود یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ انھوں نے شرک کا کاروبار جاری کررکھا ہے اور ان کی زندگیوں میں سرکشی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا اور اللہ نے ان پر لعنت کی پھٹکار ماری ہے۔ بنابریں ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کے ساتھ نہایت سخت سلوک کیا جائے لیکن یہاں فرمایا جارہا ہے کہ وہ اس بات کا اطمینان رکھیں کہ ہم ان کے ایک ایک عمل کو ترازو کے تول تولیں گے اور اگر انھوں نے کوئی بھی خیرکاراستہ اختیار کرنے کی کوشش کی تو ان کے حق سے انھیں ہرگز محروم نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ ذرا برابر ناانصافی نہیں کی جائے گی۔
Top