Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ خوب بات ہے یہ جس کی اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، بیشک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَاحَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا (بےشک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ خوب بات ہے یہ جس کی اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، بیشک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے) (النسآء : 58) گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی دو نعمتوں سے نوازا ہے جن نعمتوں سے اس سے پہلے یہود کو نوازا گیا تھا۔ یعنی یہود کو ایک حامل دعوت امت بنایا گیا تھا اور شریعت الٰہی کی امانت ان کے سپرد کی گئی تھی اور پھر آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومتیں بھی عطا فرمائی تھیں۔ اب یہی دونوں نعمتیں مسلمانوں کو عطا فرمائی جارہی ہیں۔ حکومت سے تویہودبہت مدت پہلے محروم کردیئے گئے اور شریعتِ الٰہی کی ذمہ داریوں سے اب ان کو معزول کیا جارہا ہے اور مسلمان بیک وقت ان دونوں ذمہ داریوں سے سرافراز اور گراں بار کیے جارہے ہیں۔ چناچہ پیش نظر آیات میں مسلمانوں کو نصیحت کی جارہی ہے کہ تم یہود کی طرح قومی اور گروہی تعصب کی بیماری میں مبتلا نہ ہونا۔ شریعتِ الٰہی کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہ کرنا جو یہود نے اختیار کیا۔ کتاب کی معرفت تم سے جو عہودلیے گئے ہیں دیکھنا یہود کی طرح ان عہدوں کو نہ توڑنا۔ آیات کا شان نزول چناچہ اس آیت کریمہ میں اس کے لیے دو بنیادی باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حقِ امانت کی ادائیگی کا اور دوسرا عدل و انصاف کی پاسداری اور بالا دستی کا۔ لیکن ان دونوں باتوں کی وضاحت سے پہلے ہمارے قدیم مفسرین جو اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہیں اس میں اگرچہ اس آیت میں بیان کردہ نصائح اور ہدایات کا استقصاء نہیں ہوتا البتہ اس آیت کریمہ سے اس واقعہ پر روشنی ضرور پڑتی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ عثمان بن طلحہ جو بیت اللہ کے نگران اور چابی بردار تھے ان کا اپنا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم پیر اور جمعرات کے روز بیت اللہ کا دروازہ کھولا کرتے تھے اور لوگ اس میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ ہجرت سے پہلے ایک روز رسول کریم ﷺ اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے تشریف لائے۔ عثمان نے آنحضرت کو اندر جانے سے روکا آپ نے بڑی بردباری کے ساتھ عثمان کے سخت کلمات کو برداشت کیا پھر فرمایا اے عثمان ! شاید تم ایک روز یہ بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں دیکھو گے جبکہ مجھے اختیار ہوگا کہ میں جس کو چاہوں سپرد کردوں۔ عثمان بن طلحہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا تو قریش ہلاک اور ذلیل ہوجائیں گے۔ آپ نے فرمایا نہیں ! اس وقت قریش آباد اور عزت والے ہوجائیں گے۔ فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے عثمان سے چابی طلب فرمائی تو ایک روایت تو یہ ہے کہ عثمان نے چابی سپرد کردی اور ساتھ ہی کہا کہ میں یہ امانت آپ کے سپرد کررہا ہوں۔ لیکن بعض دوسری روایات میں یہ ہے کہ عثمان چابی لے کر بیت اللہ کے اوپرچڑھ گیا۔ حضرت علی ( رض) نے زبردستی چابی اس کے ہاتھ سے لے کر آنحضرت کو دی۔ بیت اللہ میں داخلہ اور وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جب حضور باہر تشریف لائے تو پھر چابی عثمان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا : یہ چابی سنبھالو یہ قیامت تک تمہارے خاندان میں رہے گی۔ جو شخص تم سے یہ چابی چھینے گا وہ ظالم ہوگا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے شخص کو اس کا حق نہیں کہ تم سے یہ چابی لے لے۔ اس کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ بیت اللہ کی خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال ملے اسے شرعی قاعدہ کے مطابق استعمال کرنا۔ عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب یہ کنجی لے کر میں خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا کہ کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یانھیں۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک آپ کا ارشاد پورا ہوا اور اس وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) فرماتے ہیں کہ اس روز جب آنحضرت ﷺ بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی۔ اس سے پہلے میں نے یہ آیت کبھی آپ سے نہ سنی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اس وقت جوفِ کعبہ میں آپ پر نازل ہوئی۔ بیت اللہ کی نگرانی اور اس کی چابی برداری اگرچہ عثمان کا کوئی حق نہ تھا کیونکہ اب تمام حقوق کا سرچشمہ اللہ اور اس کے رسول کی ذات تھی وہ جس کو جو عطا فرمادیتے وہی اس کا حق بن جاتا۔ لیکن آپ نے عثمان کے ظاہری حق کو دیکھتے ہوئے جو خاندانی طو رپر اس کے پاس تھا آپ نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے چابی اس کے حوالے کردی حالانکہ اس وقت حضرت عباس اور حضرت علی ( رض) نے آپ سے درخواست کی تھی کہ جس طرح بیت اللہ کی خدمت، سقایہ اور سدانہ ہمارے پاس ہے، یہ کنجی برداری کی خدمت بھی ہمیں عطا فرمادیجیے۔ مگر آپ نے ان کی درخواست رد کرکے کنجی عثمان بن طلحہ کو واپس فرمائی۔ یہ واقعہ بظاہر حقِ امانت کی ادائیگی کی بہترین مثال ہے کہ آج جبکہ تمام حقوق اور امانتیں آنحضرت کی تحویل میں ہیں لیکن آپ پرانے حوالوں کی بھی قدر فرما رہے ہیں۔ لیکن مراد اس آیت سے صرف یہی حکم دینانھیں بلکہ جوفِ کعبہ میں اس آیت کا نزول بطور ِ خاص یہ بتلانے کے لیے کافی ہے کہ آج فتح مکہ کے بعد اللہ نے اسلام کو ایک ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ آج آپ جس طرح ایک حامل دعوت امت کے رسول اور قائد ہیں اسی طرح ایک ملک عظیم کے مالک اور ایک ریاست کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ نے اس ریاست کو ایسی بنیادیں فراہم کرنی ہیں اور ان طریقوں پر چلانا ہے جو آئندہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہوں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کو چند باتوں کا حکم دے رہا ہے جن پر عمل کرتے ہوئے آپ اس ریاست کو نمونے کی ریاست بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امانت کا مفہوم سب سے پہلاجو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا (اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کرو) ۔ اس آیت کریمہ میں سب سے پہلی جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ امانات امانت کی جمع ہے۔ امانت کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ امانت صرف یہ نہیں کہ آپ کسی شخص کے پاس کوئی چیز رکھیں اور وہ آپ کو جوں کی توں واپس کردے بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے۔ تمام حقوق و فرائض خواہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہوں یا حقوق العباد سے انفرادی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی نوعیت کے۔ اپنوں سے متعلق ہوں یا بےگانوں سے۔ مالی معاملات کی قسم سے ہوں یا سیاسی معاہدات کی قسم کے۔ صلح وامن کے دور کے ہوں یا جنگ کے۔ غرض جس نوعیت اور جس درجے کے حقوق و فرائض ہوں وہ سب امانت کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اس لحاظ سے اگر آپ غور فرمائیں تو آپ محسوس فرمائیں گے کہ عبادات بھی امانت ہیں۔ تمام عائلی حقوق و فرائض تمام معاشرتی حقوق وفرائض، تمام تمدنی حقوق وفرائض، تمام سیاسی حقوق وفرائض، تمام حکومتی حقوق وفرائض، تمام قومی حقوق وفرائض، یہ سب امانات میں شامل ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : کُلُّـکُمْ رَاعٍ وَکُلُّـکُمْ مَّسئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ (تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور تم میں ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا) حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں۔ جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل ونصب کے اختیارات ہیں۔ ان میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردے جو اپنی عملی یاعلمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہ ہو بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لیے اپنے دائرہ حکومت میں اہل کو تلاش کریں۔ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی اور پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی وجہ سے بغیر اہلیت معلوم کیے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل۔ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور سب مسلمانوں کی خیانت کی۔ خود آنحضرت ﷺ کا طرز عمل ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت ابوذر غفاری ( رض) سابقون الاولون میں سے ہیں اور آنحضرت کے ساتھ ان کی نہایت قربت تھی۔ اس کے باوجود جب حضرت ابوذر نے آنحضرت سے درخواست کی کہ آپ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرمائیں تو آپ نے فرمایا : یَااَبَاذَرْ اِنَّـکَ ضَعِیْٖفٌ وَاِنَّھَا اَمَانَـۃٌ وَّاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ اَخَذَ بِحَقِّھَا وَاَدّٰی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا (اے ابوذر ! تم ایک کمزور آدمی ہو اور منصب ایک امانت ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انتہائی ذلت اور رسوائی ہوگی (اس رسوائی سے صرف وہ بچے گا) جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور جس نے پھر اس کا پورا حق ادا کیا) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح منصب عطا کرنے والے اور ذمہ داریاں تفویض کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی شخص کو ایسی ذمہ داری پر فائز نہ کرے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ اسی طرح ذمہ داری اور عہدہ لینے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ کسی ایسے منصب اور عہدے کی خواہش اور کوشش نہ کرے جس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی اس میں صلاحیت نہ ہو اور اگر اس نے دھوکہ دے کر یا سفارش کے ذریعے ایسے کسی منصب کو حاصل کرلیا تو وہ جب تک اس منصب پر رہے گا اللہ کی ناراضگی کا ہدبنا رہے گا اور قیامت کے دن سخت باز پرس سے گزارا جائے گا۔ نا اہلوں کو امانت سپرد کرنا خرابی کا اصل سبب ہے حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی ادارہ ہو یا ملک اس کی خرابی کی بنیاد ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ذمہ داریاں ان لوگوں کے سپرد کی جاتی ہیں جن میں ان کی ادائیگی کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاملات روز بروز بگڑتے جاتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِذَا وُسِّدَالْاَمْرُ اِلٰی غَیرِ اَہلِہٖ فَانْتَظِرِالسَّاعَۃ (جب کاموں کی ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کی جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو) کیونکہ نااہلوں کی کوئی فوج بھی کسی کام پر لگادی جائے تو وہ کام کے بگاڑ میں اضافہ تو کرسکتی ہے اصلاح نہیں کرسکتی۔ ہمارے ملکی اور قومی معاملات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں اور ہم نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ لیکن ہم کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے حالانکہ معمولی عقل کا آدمی بھی حکومت کے ایوانوں سے لے کر معمولی دفاتر تک یہ صورتحال دیکھ رہا ہے کہ اکثر مناصب پر وہ لوگ فائز ہیں جو یا تو اس فیلڈ سے تعلق نہیں رکھتے اور یا اس کام کی ان میں صلاحیت نہیں۔ حکومت کا نظام چلانے کے لیے سیاسی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور فوج کا نظام چلانے کے لیے عسکری علوم میں مہارت اور تجربے کی۔ لیکن اگر جرنیل سیاستدان لگادیئے جائیں اور حکومت جرنیلوں کے سپرد کردی جائے تو اس کا نتیجہ معلوم کرنے کے لیے کسی بزرجمہر کی ضرورت نہیں۔ جب تعلیمی ادارے جرنیلوں کے سپرد کردیئے جائیں اور انتظامی اداروں پر اساتذہ کو فائز کردیاجائے، وزارتِ صحت کسی تاجر کو دے دی جائے اور وزارتِ تجارت کسی ٹیکنوکریٹ کے حوالے کردی جائے اور یونیورسٹیوں کے چانسلر ایف اے پاس ہوں اور وزیر تعلیم تک میٹرک کی سطح کی تعلیم رکھتے ہوں اس طرح سے ہر شعبہ غیر متعلق اور نااہل لوگوں کے سپردکر دیا جائے تو اس سے مختلف نتائج نہیں نکل سکتے جن سے آج ہم گزر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے طلبا نے ایک دفعہ صرف اس لیے گریجوایشن اور پوسٹ گریجوایشن کی ڈگریاں لینے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ڈگریاں ایوارڈ کرنے کے لیے جو گورنر صاحب چانسلر کی حیثیت سے تشریف لائے تھے وہ شاید ایف اے بھی نہ تھے اور ہمارے ملک میں یہ بھی لطیفہ ہوچکا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر تعلیم ایک ایسے صاحب رہ چکے ہیں جو میٹرک پاس تھے۔ انھیں انڈیا کے دورے پر جانا پڑا جہاں کے وزیر تعلیم مولاناابوالکلام آزاد تھے جن کے علم وفضل کا چرچا آج تک ان کی سیاسی مخالفت کے باوجود بھی جاری ہے۔ ان کے لیے بھی اور ہمارے وزیر تعلیم کے لیے بھی مجبوری تھی کہ ہم منصب ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات کریں۔ ہمارے وزیر تعلیم صاحب ان کی ملاقات کو جاتے ہوئے سوچتے گئے کہ ابوالکلام چونکہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے ادیب بھی ہیں بہتر ہے کہ میں ملاقات میں کوئی مصرعہ یا شعر ان کے سامنے ضرورپڑھوں۔ لیکن ان سے گفتگو کرتے ہوئے ایسے گھبرائے کہ ان سے اجازت چاہتے ہوئے فرمانے لگے ؎ اچھا مولانا اب رستک ملیں گے گر خدا لایا رخصت کا تلفظ تک بھول گئے اور انڈیا کے اخبارات نے اس کو خوب اچھالا اور پاکستان کی عزت میں خوب خوب اضافہ ہوا۔ ہمارے ملک کی وزارتوں پر اور یونیورسٹیوں کے منصب صدارت پر جو لوگ فائز ہوتے رہے ہیں اور اسی طرح ہمارے ملک کے کلیدی مناصب پر جن لوگوں کا قبضہ رہا اور آج بھی ہے اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ اگر ان کی تفصیلی رپورٹ تیار کرسکے تو ایک ایسا گلدستہ ظرافت تیار ہوگا جسے دیکھتے ہوئے ہم اپنے سارے غم بھول جائیں گے۔ امانت کی اہمیت حقِ امانت کا یہ دیوالیہ اس قوم کے ہاتھوں انجام پذیر ہورہا ہے جسے قرآن کریم کی ہدایت کے ساتھ ساتھ سرکارِ دوعالم ﷺ نے بھی اس حد تک تاکید فرمائی تھی کہ صحابہ یہ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ نے کوئی خطبہ ارشاد نہیں فرمایا جس میں آپ نے یہ دو باتیں ارشاد نہ فرمائی ہوں۔ 1 لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ” جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں “ 2 لادین لمن لاعہد لہ ” جس شخص میں عہد کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “ حق امانت میں عدل و انصاف پر زور اس آیت کریمہ میں دوسرا جو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے : وَاِذَاحَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْابِالْعَدْلِ ” جب تم لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو عدلوانصاف کے ساتھ کیا کرو “۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس سے پہلے ہر سطح کے ملکی مناصب سپرد کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر منصب اللہ کی سپرد کردہ ایک امانت ہے۔ اس میں خیانت مت کرنا۔ خیانت یہ ہے کہ اسے ایسے لوگوں کے سپرد نہ کرنا جن میں ان کی اہلیت نہ ہو اور جو اللہ سے ڈرنے والے نہ ہوں۔ اس حکم کے بعد اب یہ دوسرا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ جس ادارے میں حکمران اہل اور اللہ سے ڈرنے والے نہیں ہوں گے اس میں انصاف کی عمل داری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ ایک چور کو اگر گھر کی نگرانی پر لگادیں، ایک بےنماز کو مسجد کا امام بنادیں، ایک جاہل اور علم دشمن کو تعلیمی ادارے کا سربراہ بنادیں، اور آپ ایک ملحد اور اباحیت پسند کو وزارتِ مذہبی امور دے دیں، ایک منکر سنت کو نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنادیں، اور پھر آپ انھیں اداروں کی فلاح و ترقی کے کام کو تیز کرنے کا حکم جاری کریں تو آپ خوب اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس حکم کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس لیے بنیادی بات یہ ہے کہ اگر مقصود ملک کے رہنے والوں میں عدل و انصاف کو عام کرنا اور ان کے معاملات کو عدل و انصاف کے مطابق چلانا ہے تو پھر سب سے پہلے ہر منصب پر اہل اور خدا سے ڈرنے والوں کو مقرر کرنا ہوگا۔ اگر عدالت کی کرسی پر ایسا منصف بیٹھا ہو جو جانتا ہو کہ عدل کرنے سے اللہ کے سامنے جوابدہی آسان ہوجائے گی اور اگر بےانصافی کروں گا تو اپنے آپ کو کند چھری سے ذبح کروں گا۔ تو ایسے آدمی سے آپ انصاف کی توقع کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ مقامی عدالتوں سے لے کر عدالتِ عظمیٰ تک راشی اور خائن لوگوں کو بٹھادیں اور پھر یہ امید کریں کہ لوگوں کو انصاف ملے گا تو لوگوں کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے سب سے پہلے حقِ امانت کی ادائیگی پر زور دیا گیا۔ جب ہر ذمہ داری پر اہل شخص فائز ہوگیا تو اب ان کو حکم دیا جارہا ہے کہ تم لوگوں کے معاملات کے فیصلے عدل و انصاف کے مطابق کرو اور یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ فیصلے صرف عدالتوں میں نہیں ہوتے ملک کے ہر ادارے میں ہوتے ہیں ایک کلرک سے لے کر چیف سیکرٹری تک بھی فیصلے کرتے ہیں ملک کا ہر تعلیمی ادارہ بچوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتا ہے۔ حکمران اور جج کو فیصلہ کرتے ہوئے صرف انصاف کے ترازو کے پلڑوں کو درست رکھنا ہے۔ اسے ہرگز یہ نہیں دیکھنا کہ فریقین میں بااثر کون ہے اور بےاثر کون ہے۔ کون سفارش لے کر آیا ہے اور کون سفارش سے محروم ہے۔ کس نے ایک بہت بڑے وکیل کو کھڑا کیا ہے اور کون ہے جو وکیل کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ انصاف جب تک بیرونی اثرات سے بےنیاز نہیں ہوتا اس وقت تک اس کا حق ادا کرنا ممکن نہیں۔ خلفاء راشدین نے آنحضرت ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے درخشاں مثالیں قائم کی ہیں۔ فاروقِ اعظم ( رض) جیسا عظیم حکمران خود عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ ہمارے گورنرز اور ہمارے حکمرانوں کی طرح اس نے اپنا کوئی ذاتی استحقاق نہیں رکھا اور جب عدالت کا جج اس کے احترام میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ برملا کہتا ہے کہ قاضی صاحب آپ نے یہ پہلی بےانصافی کی ہے کیونکہ آپ نے دوسرے فریق پر مجھے ترجیح دی ہے۔ حضرت علی ( رض) ایک مقدمے میں خود عدالت میں فریق بن کرجاتے ہیں۔ فریقین کو مساوات دینے کی انتہا یہ ہے ایک یہودی حضرت علی ( رض) کے خلاف حضرت عمر فاروق ( رض) کے پاس مقدمہ لے کر آتا ہے آپ یہودی کو سامنے کھڑا ہونے کا حکم دیتے ہیں اور حضرت علی سے فرماتے ہیں کہ ابوالحسن تم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ حضرت علی ( رض) کھڑے تو ہوجاتے ہیں لیکن چہرے پر ناگواری کے آثار ہیں۔ فیصلے کے بعد حضرت فاروقِ اعظم ( رض) نے حضرت علی ( رض) سے پوچھا کہ کیا تمہیں یہودی کے برابر کھڑا ہونا برا لگا ؟ حضرت علی ( رض) نے فرمایا : ایسا نہیں ! مجھے جو بات بری لگی وہ اور تھی۔ وہ یہ کہ آپ نے یہودی کا تو نام لے کر کھڑا ہونے کا حکم دیا لیکن مجھے آپ نے ابوالحسن کہہ کر کنیت سے پکارا، جو لحاظ اور احترام کی علامت ہے۔ اس طرح سے فریقین میں مساوات نہ رہی، یہودی کیا سمجھے گا کہ اسلام میں مساوات نہیں۔ اس آیت کریمہ میں بھی دیکھئے انصاف کا حکم دیتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان انصاف کرو بلکہ بین الناس فرمایا یعنی لوگوں کے درمیان انصاف کرو۔ ایک طرف اگر مسلم ہو اور دوسری طرف غیرمسلم حتیٰ کہ اگر ایک طرف امیرالمومنین ہوں اور دوسری طرف غیرمسلم فیصلہ پھر بھی انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔
Top