Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 85
فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ
فَاَثَابَهُمُ : پس ان کو دئیے اللّٰهُ : اللہ بِمَا قَالُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کہا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس (ان) میں وَذٰلِكَ : اور یہ جَزَآءُ : جزا الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں ‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے
فَاَثَابَھُمُ اللہ ُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الاَْنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط وَ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ۔ (المائدہ : 85۔ 86) ” ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں ‘ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے “۔ ” رہے وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انھیں جھٹلایا تو وہ جہنم کے مستحق ہیں “۔ انسان کی اصل کامیابی نصاریٰ کے اس گروہ کو جنھوں نے نہایت کشادہ قلبی اور مسرت کے جذبات کے ساتھ اللہ کے دین کو قبول کیا تو اللہ نے ان کو وہ تمام نعمتیں عطا فرمائیں ‘ جو اللہ کے عظیم خوش نصیب بندوں کا ہمیشہ مقدر بنتی ہیں ‘ جس کا اجمالی نام ” جنت “ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی زندگی کی سرفرازیوں کے لیے پوری زندگی جہد و عمل میں گزارتا ہے اور پھر ہر آدمی کی کامیابی کے عنوانات اور صورتیں بھی جدا جدا ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی نگاہ میں کسی بھی انسان کی حقیقی کامیابی کی جو آخری صورت ہے ‘ جس کے سامنے ساری کامیابیاں ہیچ ہیں اور اگر وہ کامیابی نصیب نہ ہو تو باقی ساری کامیابیاں ‘ کامیابی کے نام پر داغ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ‘ وہ کامیابی یہ ہے فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط (اٰل عمران 3: 185) (جس کو جہنم کی آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ حقیقت میں کامیاب ٹھہرا) یہ وہ کامیابی ہے جو اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے اس گروہ کو عطا فرمائی اور یہی وہ کامیابی ہے جو ہر اس گروہ کو ملے گی جو ان کی طرح والہانہ اللہ کے دین کی قبولیت اور عمل کے لیے اقدام کرے گا۔ جو شخص یا جو افراد اللہ کے دین کی قبولیت سے محروم رہیں گے اور وہ اس سے انکار اور اس کی تکذیب کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ‘ ان کا انجام ‘ جسے نہایت خطرناک انجام کہنا چاہیے ‘ وہ یہ ہوگا کہ انھیں جہنم کی نذر کردیا جائے گا۔ یہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ کے اس مکمل کردار کی تصویر کشی سے یہود پر تعریض کی جا رہی ہے کہ تم ایسے بدنصیب ہو کہ تمہیں صدیوں سے مذہب کے ورثے کے حامل ہونے کا دعویٰ ہے اور اپنے بارے میں نجانے کیسے کیسے باطل خیالات تم نے بنا رکھے ہیں ‘ لیکن حق کی قبولیت سے محروم رہ کر تم نے اپنے لیے جہنم کا سودا کیا۔ بجائے اس کے کہ تم نصاریٰ کی طرح آگے بڑھ کر اسلام کی علمبرداری کرتے اور جنت کے وارث ہوجاتے ‘ لیکن تمہاری ایسی قسمت پھوٹی ہے کہ اب تمہارا مستقل مقدر جہنم میں رہنا ہے۔ صحابہ ( رض) کی سب سے بڑی خواہش اس رکوع کی آخری آیتوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ اللہ کے ان نیک بندوں کو کس طرح جنت کی آرزو میں ٹرپتا ہوا دکھایا گیا ہے ‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن کی سب سے بڑی آرزو جنت کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ( رض) بھی وہ چیز ‘ جس نے ان کے شب و روز کی خواہشات پر غلبہ پا لیا تھا ‘ حتیٰ کہ جس کے لیے وہ جان قربان کردینا بھی معمولی بات سمجھتے تھے وہ صرف یہ جنت کی آرزو تھی۔ بہت سارے ایسے واقعات میں سے میدان بدرکا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب ایک صحابی ( رض) نے کہا کہ کاش ! میں بھی اس جنت میں جاتا ‘ جس کی وسعت زمین و آسمان سے بڑھ کر ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم بھی انہی میں سے ہو۔ چناچہ اس خوشخبری کے بعد اس صحابی ( رض) کے جوشِ مسرت کا عالم دیدنی ہے کہ اس نے وہ کھجوریں پھینک دیں ‘ جنھیں وہ کھا رہا تھا اور کہنے لگا کہ جنت کی طلب میں اتنی دیر رکے رہنا ‘ جتنی دیر میں یہ چند کھجوریں ختم ہوں گی ‘ یہ تو بڑی طویل محرومی ہے۔ اب جنت ہی میں چل کر کھجوریں کھائیں گے ‘ چناچہ دیوانہ وار لشکر میں گھس گیا اور داد شجاعت دیتا ہوا شہید ہوگیا۔ اسی طرح ہم جنگ احد میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اسی وقت ایمان لایا۔ پوچھا حضور ﷺ ! اب میرے لیے کیا حکم ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سامنے جنت تیرے انتظار میں ہے ‘ وہ مستانہ وار آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کو کوئی اسلامی عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ادھر اسلام قبول کیا ‘ اس کے چند گھنٹوں کے بعد وہ اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ حضور ﷺ نے اس کی لاش پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اس شخص نے کام بہت تھوڑا کیا ‘ لیکن اجر بہت پا گیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ جنتی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ یا اللہ میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ جنت کی طلب ہمیشہ مومنوں کے دل کی آرزو اور ان کے دل میں ہیجان پیدا کرنے والی ہوتی تھی۔ لیکن آج نجانے کیا بات ہے کہ ہمارا بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ جو ماشاء اللہ نیک بھی ہے ‘ اسے جنت کی طلب ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے اور جنت کی آرزو کرتے ہوئے وہ جھجک محسوس کرتا ہے۔ نہ جانے یہ ہمارے دینی جذبات اور ہمارے اخروی احساسات کیوں تبدیل ہو کے رہ گئے ہیں ؟ ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہے۔
Top