Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 91
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُرِيْدُ : چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ يُّوْقِعَ : کہ دالے وہ بَيْنَكُمُ : تمہارے درمیان الْعَدَاوَةَ : دشمنی وَالْبَغْضَآءَ : اور بیر فِي : میں۔ سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا وَيَصُدَّكُمْ : اور تمہیں روکے عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَ : اور عَنِ الصَّلٰوةِ : نماز سے فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّنْتَهُوْنَ : باز آؤگے
شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمہارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو بتائو ! کیا اب تم ان سے باز آتے ہو ؟
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِج فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ۔ (المائدہ : 91) ” شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں لگا کر تمہارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے ‘ تو بتائو ! کیا اب تم ان سے باز آتے ہو ؟ “۔ شراب اور جوئے کے تین یقینی نتائج شراب اور جواء یوں تو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ہر سطح پر تباہ کن برائیاں ہیں ‘ لیکن ان کی اصل تباہی یا وسیع تر تباہی اس وقت شروع ہوتی ہے ‘ جب کسی معاشرے میں ان کے ساتھ اشتغال اور انہماک بڑھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ کہہ کر اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ شیطان ان برائیوں میں محدود سطح پر معاشرے کے آلودہ ہونے سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ پوری طرح معاشرے کو ان برائیوں میں ڈبو دیا جائے اور جب یہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے تو پھر اس کے تین نتائج نکلتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ شیطان یہ تین نتائج پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان تینوں باتوں کو بیان فرمایا گیا ہے : ایک یہ کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے اندر عداوت اور بغض پیدا کر دے۔ دوسری یہ بات کہ تمہیں ذکر اللہ سے روکے۔ تیسری یہ بات کہ تمہارا تعلق نماز سے توڑدے۔ اگر تھوڑا سا تدبر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تمام تر قوت انہی تینوں باتوں میں مضمر ہے کیونکہ اگر اس میں بغض اور عداوت پیدا ہوجائے تو معاشرہ کھیل کھیل ہوجاتا ہے اور اسلامی اخوت جو مسلمانوں میں اللہ کا خاص کرم ہے ‘ وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اسلامی معاشرے کی تمام تر مضبوطی اور اس کے سمت سفر کا تعین اس کا دارومدار اللہ کی یاد کے باقی رہنے پر ہے اور یاد کی عملی شکل اور اس کی ابتدائی اور آخری صورت نماز ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی معاشرے کا ان تینوں قوتوں سے بےبہرہ ہوجانا ‘ یہ مسلمانوں کے لیے قیامت سے پہلے قیامت ہے۔ اس لیے ہمیں اس پر تھوڑا سا غور کرنا ہے کہ شراب اور جوئے سے یہ تینوں برائیاں کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے شراب کو لیجئے۔ جس قوم کی مجلسی زندگی میں شراب داخل ہوجاتی ہے اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب مختلف تقریبات میں شریک ہونے والے مل جل کے شراب پیتے ہیں تو ان میں سے اکثر شراب کے زیر اثر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ پھر ان کے سفلی جذبات کے تحت جو کچھ ان کے دماغ میں ہوتا ہے ‘ وہ زبانوں پر آتا ہے اور عزتیں پامال ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا عموماً اسی مجلس کے شرکاء میں سے کوئی ایک اٹھتا ہے تو دوسرے شریک مجلس کی بیٹی ‘ بہن یا بیوی کے بارے میں عشق کا اظہار کرنا شروع کردیتا ہے اور جب نشہ آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواتین کے گریبانوں تک مردوں کے ہاتھ پہنچنے لگتے ہیں۔ اب دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو کے رہتی ہے کہ اگر ان شرابیوں میں عفت و عصمت اور غیرت کی کوئی رمق بھی باقی ہے تو یقینا جس کی بہن بیٹی یا بیوی کے بارے میں اس طرح کی بےحیائی کا اظہار ہو رہا ہے ‘ وہ یقینا اس پر ردعمل کا اظہار کرے گا ‘ جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے گریبانوں تک ہاتھ پہنچیں گے ‘ مار کٹائی ہوگی اور کوئی بڑی بات نہیں کہ ان میں سے کئی ایک گھر جانے کی بجائے پولیس کے نرغے میں پہنچ جائیں۔ یہ صورت حال صرف ایک مفروضہ نہیں بلکہ وہ عرب جو قرآن کریم کے احکام کے براہ راست مخاطب تھے ‘ ان میں آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آتے تھے۔ وہ ایک طرف تو شراب کے رسیا تھے اور دوسری طرف عفت کا احساس اور غیرت کا جذبہ بھی پوری طرح ان میں توانا تھا۔ اس لیے جب کوئی شرابی شراب کی ترنگ میں ان کی عزت سے کھیلنے لگتا تھا تو ہاتھ ہمیشہ قبضہ شمشیر تک پہنچتے اور کندھوں سے سروں کا بوجھ ہلکا ہونے لگتا اور پھر ایسی لڑائی چھڑتی جس کی آگ برسوں تک بجھنے نہیں پاتی تھی۔ چناچہ عربوں کی کئی بڑی بڑی لڑائیاں اسی شراب خانہ خراب کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ حتیٰ کے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے صحابہ ( رض) کی بعض مجالس میں بھی لڑائی تک تو نوبت نہیں پہنچی لیکن بدمزگی کے بعض واقعات ضرور پیش آئے اور انہی واقعات کے باعث حضرت عمر فاروق ( رض) نے اللہ سے دعا کی کہ ” یا اللہ ! شراب کے بارے میں مکمل حکم نازل فرما “ آج بھی اس طرح کے واقعات سے شرابیوں کے حوالے سے واقفان حال بہت کچھ آگاہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ شراب پینے والے شراب کے نتیجے میں ہوش و خرد کے ساتھ ساتھ عفت و عصمت کے احساس اور جذبہ غیرت سے بھی محروم ہوجائیں ‘ جس طرح مغربی سوسائٹی میں ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ شراب کے نتیجے میں ان میں عفت عزت ‘ ناموس اور وفا و حیا کا احساس تک باقی نہیں رہا۔ ظاہر ہے مسلمان کتنے بھی بدراہ کیوں نہ ہوجائیں ‘ اس صورت حال کو قبول کرنا ان کے لیے کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ اس وقت بھی اگرچہ ہمارا بالائی طبقہ مغربی تعلیم و تہذیب کے زیر اثر ایک حد تک اس کا شکار ہوچکا ہے ‘ لیکن مسلمانوں کی عمومی زندگی ابھی تک اس اثر سے محفوظ ہے۔ مگر شیطان کا اصل ہدف چونکہ اسی صورت حال کو پیدا کرنا ہے ‘ اس لیے وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے اس ہدف کو حاصل نہ کرلے۔ مختصراً یہ کہ شراب کے ذریعے بغض و عداوت کا پیدا ہونا ‘ یہ ایک ایسی مشاہدے کی بات ہے ‘ جس کا انکار کرنا مشاہدے کا انکار کرنا ہے۔ جہاں تک مَیْسِرِ یعنی ” جوئے “ کا تعلق ہے ‘ اس کے ذریعے بھی شیطان مسلمانوں میں یہی بغض و عداوت کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے اور جہاں جہاں بھی جواء ہوتا ہے ‘ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں ایسی صورت حال بالعموم دکھائی دیتی ہے ‘ ہمارے احتسابی ادارے مجھے نہیں معلوم کہ اس طرف دھیان دیتے ہیں یا نہیں۔ لیکن میرا گمان یہ ہے کہ یہ اندھے قتل اور نامعلوم وارداتیں ‘ جہاں ان کے اور بہت سارے اسباب ہیں وہاں اس کا ایک بڑا سبب یہ قمار باز بھی ہیں کیونکہ قمار اور جوئے کی بازی میں یہ تو طے شدہ بات ہے کہ دو فریقوں میں سے ایک فریق ہارتا ہے لیکن وہ اپنے اس شغل ناپاک سے کبھی دست کش نہیں ہوتا۔ اسے ہمیشہ یہ خیال ہوتا ہے کہ آج میں بازی ہار گیا ہوں ‘ کل ضرور جیت لوں گا۔ رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ گھر کا اثاثہ تک اس کی نذر ہوجاتا ہے اور بعض ناہنجار تو اپنی بیویاں تک اس میں ہار دیتے ہیں۔ اندازہ فرمایئے ! جب ایک آدمی سب کچھ ہار دینے کے بعد فاقوں کی نذر ہوتا ہے اور گھر میں بچے بھوک سے بلکنے لگتے ہیں اور اس کا اپنا پیٹ خالی ہونے کی وجہ سے غیظ و غضب کا تنور بن جاتا ہے تو پھر یہ شخص خود سے جیتے ہوئے آدمی کے بارے میں کیا محبت کے جذبات رکھے گا ؟ یقینا اس کے اندر غیظ و غضب کی فصل اگے گی اور عداوت اس کی رگ رگ میں سما جائے گی۔ جیسے جیسے قمار بازوں کی تعداد بڑھے گی ویسے ویسے اسلامی معاشرے میں غیظ و غضب کی فصل بھی بڑھتی جائے گی۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک نہ ایک دن یہ معاشرہ تباہ ہوجائے گا۔ یہی وہ صورت حال ہے ‘ جس کے بارے میں یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ خمر اور قمار سے شیطان تمہارے اندر عداوت اور بغض کے جذبات پیدا کر کے ‘ تمہیں تباہ کردینا چاہتا ہے۔ -2 دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اس خمر اور میسر یعنی شراب اور جوئے سے شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اللہ کے ذکر سے روک دے۔ اب ہم الگ الگ دونوں حوالوں سے دیکھتے ہیں کہ شیطان کس طرح ان کے ذریعہ ذکر اللہ سے روکتا ہے۔ جہاں تک شراب کا تعلق ہے ‘ اس کا سب سے پہلا اثر جو ایک مے خوار یعنی شرابی پر ہوتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ شراب کا نشہ اسے زندگی کی ضرورتوں اور زندگی کی حقیقتوں سے فرار کا راستہ دکھاتا ہے ‘ وہ اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں سے جب اپنی کوتاہیوں کے باعث عہدہ برآ ہونے سے قاصر رہتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرے اور محنت اور کوشش سے ناکامیوں پر غالب آنے کی کوشش کرے ‘ وہ شراب کے نشے میں مغلوب ہو کر گریز کی ایک صورت پیدا کرلیتا ہے۔ شروع شروع میں تو ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے اس کی مشکلات بڑھتی جاتی ہیں ‘ ویسے ویسے اس کی خیالی جنت کی طلب افزوں ہوتی جاتی ہے ‘ آخر وہ مرحلہ بھی آجاتا ہے کہ انسانی ذمہ داریوں سے فرار کے بعد ‘ وہ اللہ کی یاد سے بھی بیخبر ہوجاتا ہے۔ اسے یہ بات بھول جاتی ہے کہ مجھے کل کو اللہ کے سامنے جواب دہی بھی کرنی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کوئی ٹیم اس وقت تک کامیابی حاصل کرتی ہے ‘ جب تک ان میں کپتان کی اطاعت کا جذبہ اور ٹیم ورک موجود ہو۔ کوئی ادارہ بھی اسی وقت تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتا ہے ‘ جب تک اسے اپنے سربراہ کا احساس اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود فراموشی ‘ یہ کسی کے لیے بھی سب سے بڑی سزا ہے اور یہ اس کی ناکامیوں کا اصل باعث ہے۔ یہاں یہی کہا جا رہا ہے کہ شیطان تمہیں شراب کے ذریعے سے اللہ کے ذکر سے روک کر تمہیں اصل قوت سے محروم کر دے گا۔ شروع میں تمہارے اندر خدا فراموشی آئے گی ‘ جس کے نتیجے میں تمہیں خود فراموشی کی سزا ملے گی اور یہ وہ سزا ہے ‘ جس کے بعد نہ کوئی فرد باقی رہتا ہے ‘ نہ کوئی قوم زندہ رہتی ہے۔ جواء اور قمار کے ذریعہ بھی شیطان اللہ کے ذکر سے روکتا ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ جوا کھیلنے والے کی خواش یہ ہوتی ہے کہ میں بغیر محنت کیے ‘ بغیر تکلیف اٹھائے ‘ بغیر حالات سے لڑے ‘ بغیر دوڑبھاگ کیے اور بغیر عرصہ دراز تک امید کے چراغ جلائے ‘ کوئی ایسا ہاتھ ماروں جس کے نتیجے میں مجھے ایک بڑی دولت مل جائے۔ میں راتوں رات امیر بن جاؤں۔ پھر زندگی کو میں عیش و عشرت سے گزاروں۔ یہ خواہش یوں تو بڑی مختصر اور بڑی معصوم سی لگتی ہے ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہوس زر اور دنیا کی محبت کا ایسا شدید غلبہ ہوتا ہے ‘ جس کے سامنے نہ حلال و حرام کی تمیز باقی رہتی ہے ‘ نہ کسی اخلاقی قدر کا وجود رہتا ہے۔ نہ انسانیت کے رشتے باقی رہتے ہیں ‘ نہ ذمہ داریوں کے احساس کا وجود رہتا ہے۔ آدمی کے سر پر پیسے دھیلے کی ایک ایسی دھن سوار ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی سب سے بڑی قدر ‘ سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی عزت کی علامت صرف دولت دنیا کو سمجھتا ہے۔ یہی اس کا معبود ہے ‘ جس کی وہ رات دن پوجا کرتا ہے۔ یہی اس کا محبوب ہے ‘ جس کے وہ راتوں کو سپنے دیکھتا ہے۔ زندگی کی حقیقتوں سے وہ اس طرح فرار اختیار کرتا ہے ‘ جس طرح ایک سگ گزیدہ پانی سے ڈرتا اور اس سے دوڑتا ہے۔ قمار اسی دولت دنیا کی ہوس کو عبادت کی حد تک پہنچا دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے نتیجے میں جیسے میں نے عرض کیا کہ ہر تعلق بھول جاتا ہے اور انسانیت تک پسپا ہوجاتی ہے۔ آدمی شہنشاہ بھی ہو تو حب دنیا کا اسیر ہو کر وہ اسلامی دنیا کو تباہ کرنے پر تل جاتا ہے۔ یہ ہم تاریخ میں جتنے غداروں کے نام پڑھتے ہیں ‘ ان کی اگر آپ تحقیق کریں تو ان میں سے ایک ایک فرد آپ کو حب دنیا کا اسیر بلکہ اس کی محبت میں پاگل اور دیوانہ دکھائی دے گا۔ کسی نے اس کے نتیجے میں ملک بیچا ‘ کسی نے قوم تک فروخت کر ڈالی۔ یہ جعفر و صادق قسم کی مخلوق ‘ اسی خطرناک بیماری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ مستعصم عباسی جیسا خلیفہ بھی خلافت کو تار تار کر کے رکھ دیتا ہے۔ یہ بیماری کئی اور اسباب سے بھی پیدا ہوتی ہے ‘ لیکن اس کا اہم تر ذریعہ یہی جوا اور قمار ہے ‘ جس کا آخری نتیجہ خدا فراموشی ہے۔ جس کی سزا خود فراموشی کی شکل میں ملتی ہے اور بالآخر تمام ذمہ داریوں ‘ تعلقات ‘ رشتے ناطے حتیٰ کے اپنی ذات کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ -3 تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ” شیطان تمہیں نماز سے روک دینا چاہتا ہے “۔ یہ اگرچہ ذکر اللہ ہی کا ایک حصہ ہے ‘ لیکن الگ سے اس کا ذکر یقینا بےسبب نہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شراب ہو یا قمار ‘ ان خانہ خراب قسم کی برائیوں کے نتیجے میں شیطان سب سے پہلے جس عظیم نعمت سے مسلمانوں کو محروم کرتا ہے ‘ وہ نماز ہے کیونکہ نماز ہی اصل میں اللہ کی یاد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پانچ وقت نماز کے ذریعہ اللہ کی یاد دہانی اس طرح آسان کردی گئی ہے کہ اگر آدمی تھوڑے سے احساس سنجیدگی کے ساتھ نماز ادا کرے تو اللہ کی یاد سے غافل ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جس معاشرے کو اللہ کی یاد سے غافل کرنا مقصود ہو ‘ اس کی آسان ترین شکل یہ ہے کہ اسے نماز سے غافل کردیا جائے اور جس معاشرے کو اللہ سے جوڑنا مقصود ہو ‘ اس کا بھی اہم تر راستہ یہ ہے کہ اسے نماز کا عادی بنادیا جائے اور نماز کے شعور سے بہرہ ور کردیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اندر جو سب سے پہلی خرابی پیدا ہوئی ‘ جس کے نتیجے میں پھر وہ دوسری خرابیوں کا شکار ہوئے اور آخر اپنے انجام کو پہنچ گئے ‘ وہ خرابی یہی تھی کہ انھوں نے نماز ضائع کردی تھی۔ شراب تو آدمی کو ہوش و حواس سے بےبہرہ کردیتی ہے اور خود اس کو اپنی ذات سے محروم کردیتی ہے اور جواء دنیا طلبی کی محبت میں ڈبو کر اور آئے دن جوئے کی سکیموں میں اندھوں کی طرح لگا کر باقی ہر رشتے سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کی موجودگی میں نماز سے تعلق باقی رہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب نماز غائب ہوجاتی ہے تو پھر اللہ کی یاد یعنی ذکر اللہ کا کون سا موقع باقی رہ جاتا ہے۔ خمر اور قمار کے بارے میں تفصیل سے ان برائیوں کا ذکر کرنے اور اس کی ممکن قباحتوں اور خطرات سے آگاہ کرنے کے بعد مسلمانوں سے پوچھا جا رہا ہے : فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ (تو بتائو کیا اب تم ان سے باز آتے ہو) استفہام عربی زبان میں تاکید ‘ اقرار ‘ تنبیہ ‘ انکار ‘ زجر ‘ امر اور تحقیر کے مفہوم کے لیے آتا ہے۔ یہاں موقع دلیل ہے کہ یہ امر کے مفہوم میں ہے۔ لیکن اس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر ‘ موعظت ‘ تاکید و تنبیہ اور اتمام حجت کا مضمون بھی پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شراب اور جوئے کے مقاصد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوئوں سے تمہارے سامنے آچکی ہے کہ اب اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں رہی تو بتائو اب بھی اس سے باز آتے ہو یا نہیں۔ اب تمہارے لیے ایک ہی راستہ ہے۔ اگر تم ان تمام خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو شیطان کے بچھائے ہوئے جال سے نکل کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں آجاؤ اور اس کی نافرمانی اور سرکشی سے بچو۔
Top