Ruh-ul-Quran - At-Talaaq : 10
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ۙ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ١ۛۖۚ۬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۛ۫ؕ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًاۙ
اَعَدَّ اللّٰهُ : تیار کیا اللہ نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا شَدِيْدًا : شدید عذاب فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ سے يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے ہو قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ : تحقیق نازل کیا اللہ نے اِلَيْكُمْ ذِكْرًا : تمہاری طرف ایک ذکر کو
اللہ نے ان کے لیے ایک سخت عذاب بھی تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل والو، جو ایمان لائے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل فرمایا ہے
اَعَدَّاللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا لا فَاتَّـقُواللّٰہَ یٰٓـاُوْلِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قف ط قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا۔ رَّسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتِ لِّـیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْـہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَـآ اَبَدًا ط قَدْ اَحْسَنَ اللّٰہُ لَـہٗ رِزْقًا۔ (الطلاق : 10، 11) (اللہ نے ان کے لیے ایک سخت عذاب بھی تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل والو، جو ایمان لائے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل فرمایا ہے۔ ایک ایسا رسول جو اللہ کی روشن آیتیں تمہیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ نکال لے جائے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے تاریکیوں سے روشنی کی طرف، جو شخص ایمان لائے گا اللہ پر اور نیک عمل کرے گا اللہ اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، بلاشبہ اللہ نے ان کو نہایت اچھا رزق عطا فرمایا ہے۔ ) مسلمانوں کو نہایت موثر تنبیہ جن قوموں کی تباہی اور بربادی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ عذاب کی صورت میں ہوئی اوپر کی آیت میں ان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جو قومیں اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرتابی کرتی ہیں اور رسول کو ماننے سے انکار کرتی ہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دنیا میں ان پر نازل ہونے والا عذاب ان کی سزا کے لیے کافی ہوجائے گا، نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت میں ان کے لیے عذاب شدید تیار کر رکھا ہے جس کے مقابلے میں دنیا کے عذاب کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہ دنیوی نامرادی اور آخرت کا عذاب شدید صرف اس وجہ سے ان بدبخت قوموں کا مقدر بنا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے نافرمانی کی، سرکشی کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ کے رسول کو ماننے سے انکار کردیا۔ اگر ان کی عقلیں سلامت ہوتیں تو وہ کبھی اس طرح اپنی زندگیاں تباہی کے راستے پر نہ ڈالتے۔ اس لحاظ سے اے مسلمانو ! تم یقینا عقلمندوں اور دانشوروں میں شامل ہو کہ تم نے اپنی عقلوں سے صحیح کام لیا اور تم اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لائے۔ یہ ایمان ایک بہت بڑی دولت ہے، ایک روشنی ہے جس نے تمہیں صحیح راستہ دکھایا۔ لیکن اب تمہارے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، ہر وقت اس سے ڈرتے رہو۔ تمہارے دل میں اس کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں آنا چاہیے اور یہ بات ذہن سے کبھی محو نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک ذکر یعنی ایک نصیحت یا ایک یاددہانی نازل فرمائی ہے۔ اس سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بعد میں آنے والا رسول کا لفظ ذکر کا بدل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تم پر ایک ایسا ذکر نازل کیا ہے یعنی رسول نازل کیا ہے۔ درحقیقت قرآن اور رسول میں کوئی بُعد نہیں۔ قرآن اگر ذکر ہے تو رسول مذکر ہے۔ اور قرآن کریم نے آپ کو مذکر ہی کہہ کر یاد فرمایا ہے۔ یعنی یاددہانی کرانے والا یا نصیحت کرنے والا۔ اس لحاظ سے اگر دونوں لفظوں سے ایک ہی شخصیت مراد لی جائے تو تب بھی صحیح ہے کہ ہم نے تم پر ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ یعنی ہمارے ایسے احکام تم پر واضح کرتا ہے جو نہایت روشن، نہایت واضح اور زندگی میں حقیقی خوشیوں اور حقیقی امن کی ضمانت ہیں۔ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ان احکام سے کبھی انحراف اختیار نہ کرو۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ تم بھی اس انجام کے راستے پر نہ پڑجاؤ جس سے معذب قومیں دوچار ہوچکی ہیں۔ ہم نے اپنا رسول بھیج کر تمہیں تاریکیوں سے نکالنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی پیروی سے انکار، تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہے۔ اور اس کا اتباع ایک ایسا روشن راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی جنت کی طرف جاتا ہے۔ سباق کا لحاظ رکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو عائلی قانون اور ازدواجی زندگی کے بارے میں ضوابط اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت اس امت کو عطا فرمائے ہیں یہ درحقیقت وہ روشنی ہے جس سے مسلمانوں کے گھر روشن ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو گھروں کی صحیح آسودگی نصیب کی ہے۔ اور جو قومیں اس سے محروم ہیں وہ ہمیشہ اندھیروں میں بھٹکتی رہیں گی۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے تو اس تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آسکا، جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظرثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی ہے اور نہ پیش آسکتی ہے۔ جن تعلیم یافتہ لوگوں کو اس بات کو ماننے میں تأمل ہو، انہیں چاہیے کہ وہ اسلام کے عائلی قوانین کا دنیا بھر کی اقوام کے جدید و قدیم عائلی قوانین سے موازنہ کرکے دیکھیں انھیں خود اس قول کی صداقت کا یقین ہوجائے گا۔
Top