Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 156
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ
وَاكْتُبْ : اور لکھدے لَنَا : ہمارے لیے فِيْ : میں هٰذِهِ : اس الدُّنْيَا : دنیا حَسَنَةً : بھلائی وَّ : اور فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اِنَّا : بیشک ہم هُدْنَآ : ہم نے رجوع کیا اِلَيْكَ : تیری طرف قَالَ : اس نے فرمایا عَذَابِيْٓ : اپنا عذاب اُصِيْبُ : میں پہنچاتا ہوں (دوں) بِهٖ : اس کو مَنْ : جس اَشَآءُ : میں چاہوں وَرَحْمَتِيْ : اور میری رحمت وَسِعَتْ : وسیع ہے كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَسَاَكْتُبُهَا : سو میں عنقریب لکھدوں گا لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : ڈرتے ہیں وَيُؤْتُوْنَ : اور دیتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیئے او آخرت کی بھی ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا پروردگار نے ارشاد فرمایا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔
وَاَکْتُبْ لَنَا فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَط قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ ج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ (الاعراف : 156) ” اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیئے او آخرت کی بھی ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا پروردگار نے ارشاد فرمایا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے “۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا اور اللہ کا جواب اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری قوم کے لیے دعا فرمائی اس لیے کہ پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے وہ اس کی دنیوی اور اخروی فلاح کا سب سے زیادہ حریص ہوتا ہے وہ اللہ سے ہمیشہ اس کے لیے ایمان و عمل کی دعائیں کرتا ہے دنیوی کامیابیاں مانگتا ہے اخروی فوز و فلاح کے لیے التجائیں کرتا ہے یہاں بھی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے حسنۃ کی دعامانگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کے جواب میں پروردگار نے اپنے کچھ اصول بیان فرمائے سب سے پہلے یہ بات فرمائی کہ میں جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں اور قرآن کریم کی دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چاہنا ہمیشہ اس کی صفت عدل کے مطابق ہوتا ہے ‘ اس کے عدل کی روایت یہ ہے کہ وہ گناہ گار بندوں کو بھی جلدی سزا نہیں دیتا انتہائی بگڑے ہوئے معاشرے میں بجائے عذاب بھیجنے کے اپنے پیغمبر بھیجتا ہے اور پیغمبر ہمیشہ اللہ کی رحمت کی نوید بن کر آتے ہیں وہ زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں ہدایت کا ایک ایک راستہ ان کے سامنے روشن کرتے ہیں اچھائی اور برائی ان کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں وہ قوم اگر ان کی دعوت کو قبول کرلیتی ہے تو اللہ کی رحمتوں کی مورد بن جاتی ہے اور وہ اگر قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو تب بھی انھیں مہلت پر مہلت دی جاتی ہے کبھی انھیں مصیبتوں میں مبتلا کر کے اللہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ مصیبتوں کی وجہ سے ان کے دل نرم پڑیں اور وہ ایمان لے آئیں اور اگر یہ مصیبتوں کا نزول بھی انھیں ایمان کی طرف راغب نہیں کرتا تو پھر انھیں خوشحالیوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ شائد اس طرح اللہ کے احسانات کے ممنون ہو کر شکر گزار بن جائیں لیکن جب ان کی سرکشی اور تمرد انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور وہ پیغمبر کو قتل کرنے کے در پے ہوجاتے ہیں تو تب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا ان پر برستا ہے چناچہ یہ وہ قانون ہے جس کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں یعنی میرا چاہنا میری صفت عدل کے تابع ہوتا ہے اور میرا عدل بندوں کو عذاب دینے میں کبھی جلدی نہیں کرتا انھیں ہر ممکن طریقے سے سمجھنے کا موقع دیتا ہے یہی قانون بنی اسرائیل کے ساتھ بھی ہے انھیں بھی آپ کی دعوت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع دیا جائے گا جب تک وہ تمرد کی انتہاء کو نہیں پہنچیں گے ہمارا عذاب ان کی طرف متوجہ نہیں ہوگا اور دوسری بات یہ فرمائی کہ میرا عذاب بندوں کی انتہائی سرکشی اور تمرد کے نتیجے میں آتا ہے ورنہ پروردگار کا عام طریقہ رحمت کا طریقہ ہے۔ اس کا نظام عالم اس کی رحمت پر قائم ہے اس کا غضب تو صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندے اپنی سرکشی کے باعث ہر طرح سے اپنے آپ کو اس کی رحمت سے محروم کرلیتے ہیں چناچہ جب ہم دنیا کے نظام کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز کو پہنچ رہی ہے جس کو بھی وجود کی نعمت ملی ہے جسے بھی زندگی کے امکانات میسر ہیں جسے بھی رزق سے نوازا جا رہا ہے یہ سب کچھ اس کی صفت رحمت ہی کا ظہور ہے اس نے زمین کو قوت روئیدگی سے مالا مال کیا ہے سورج کی کرنیں سمندر سے پانی کے ڈول بھر بھر کر فضاء میں ابر کی چادریں بچھاتی ہیں ‘ درخت پھلوں سے لدے ہوئے لذت کام و دہن کو دعوت دے رہے ہیں چاروں طرف سبزے کی مخملی چادریں بچھا دی گئی ہیں زمین سے چشمے ابال دئیے گئے ہیں مختلف قسم کے قد آور درخت چھتریاں تانے ٹھنڈک کا سامان کیے ہوئے ہیں ‘ پہاڑوں سے آبشاریں گر رہی ہیں لہلہاتی فصلیں غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہر دم آمادہ ہیں یہ جو چاروں طرف ایک خوان کرم پھیلا ہوا ہے یہ سب کچھ اس کی رحمت کا ہی تو فیضان ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ حواس کی نعمت بےپایاں، عقل جیسا جوہرِ کامل اور سب سے بڑھ کر وحیٔ الہٰی سے انسانوں کی راہنمائی کا سامان یہ اس کی رحمت کی وہ سخاوت ہے جس سے ہر کس و ناکس کو نوازا گیا ہے اور اس پر بھی مزید یہ کہ جب کوئی آدمی غلطی کرتا ہے یا اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو فوراً اس کی طرف سے گرفت نہیں آتی اگر پروردگار ہر غلطی پر گرفت فرمانے لگتا تو قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم روئے زمین پر کسی زندہ انسان کو چلتا پھرتا نہ دیکھتے کیونکہ کونسا انسان ہے جو غلطیوں سے مبرا ہے ؟ کونسی چال ہے جو لڑکھڑاہٹ سے پاک ہے ؟ کونسا خیال ہے جس میں بہکنے کا اندیشہ نہ ہو ؟ کونسا ارادہ ہے جس پر ناتمامی کا داغ نہ لگا ہو ؟ اگر ان تمام کوتاہیوں پر پروردگار پکڑنے لگتا تو اندازہ فرمایئے اس کا نتیجہ کیا ہوتا یہ اس کی رحمت کا ظہور ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے سنبھلنے کا موقع دیتا ہے اور اگر کبھی کسی کو پکڑتا بھی ہے تو فی الحقیقت وہ بھی اس شخص کی بھلائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے میں نے ایک گوالے کو دیکھا وہ ایک حکیم صاحب کی دکان پر بیٹھا اول فول بک رہا تھا لوگ اسے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے اور اس کی جسارت کا عالم یہ تھا کہ وہ یہ کہتا تھا کہ شکر کس بات کا ؟ بھینسیں میری، چارہ میرا، سنبھالنے والے آدمی میرے، دودھ نکالنے اور بیچنے والے میرے اپنے ملازم، تو پروردگار کا شکر کس بات پر ادا کروں ؟ اچانک چھت سے ایک اینٹ پھسلی اور اس کے کندھے پر آ کر گری کندھا ٹوٹ گیا۔ ہسپتال پہنچایا گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر اس کا بازو فوراً نہ کاٹا گیا تو زہر پھیل جائے گا چناچہ بازو کاٹ دیا گیا زخم مندمل ہونے کے بعد جب وہ بازار میں آیا تو ہر جاننے والے سے کہتا تھا کہ اللہ کے غضب سے ڈرو۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائو اس کی گرفت آتے دیر نہیں لگتی۔ اندازہ فرمائیے کہ ایک اینٹ نے اس شخص کی زندگی تبدیل کر ڈالی اگر وہ اپنے ڈگر پر چلتا رہتا تو اپنی عاقبت تباہ کرلیتا اب اس کی دنیا بھی بچ گئی اور آخرت بھی بچ گئی۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اس نظام عالم پر اصل حکمرانی اللہ کی رحمت کی ہے۔ چناچہ دنیا کی بھلائی بھی اسی کی رحمت سے ہے اور آخرت بھی اسی کی بھلائی سے ہے لیکن جس طرح دنیا میں اس بھلائی اور اس رحمت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے رزق اس کی رحمت ہے لیکن اس کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ یہ انسان کا فرض ہے۔ علم اس کی کتنی بڑی رحمت ہے لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنا اور آنکھوں کو سینکنا پڑتا ہے اسی طرح آخرت میں بھی اس رحمت اور حسنۃ کو حاصل کرنے کے لیے زندگی کے وہ اطوارختیار کرنے پڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو عطا فرمائے ہیں۔ اس کا خلاصہ دیکھا جائے تو تین چیزیں ہیں جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ میں آخرت کی بھلائی ان لوگوں کو دوں گا جو اپنے اندر تین صفات پیدا کریں گے۔ جن میں پہلی صفت تقویٰ ہے یعنی انسان اپنی فکری دنیا کو ہر طرف سے یک سو کر کے اپنے دل و دماغ میں ان بنیادی افکار کو بسا لے جنھیں ایمانیات اور اقدارِ حیات کہا جاتا ہے اور پھر ان کے سائے میں دل و دماغ کی اس طرح تربیت کرے کہ جس سے ہر فکری بت پاش پاش ہوجائے اور اللہ کی محبت کی جڑیں دل و دماغ میں پیوست ہوجائیں گناہ سے نفرت ہونے لگے اور نیکی کی طرف دل لپکتا جائے۔ اس طرح سے جب دل و دماغ کا تعلق ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کے ساتھ جڑ جائے گا تو زندگی کی منزل متعین ہوجائے گی اس کے فکری رشتے اللہ کے ساتھ استوار ہوجائیں گے اس کا طرز حیات اللہ کے رسول کی سنت کا آئینہ دار ہوجائے گا اور اس کے حسن و قبح کے معیارات وہی ٹھہریں گے جنھیں وحی الٰہی کی سند حاصل ہوگی۔ انسانی زندگی پر فکری حکمرانی کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ مال و زر کی محبت ہے یہ محبت حد سے بڑھ جائے تو سیرت و کردار کا بحران پیدا ہوجاتا ہے اس کا اعتدال پر رکھنا افکار کی صحت کے لیے بھی نہایت ضروری ہوتا ہے اور جہاں تک انسانوں کے درمیان رشتوں اور معاملات کا تعلق ہے اس کا تو بہت حد تک دارو مدار دولت دنیا کے ساتھ انسانی تعلق کے اعتدال پر ہے۔ اسی لیے آیت کریمہ میں تقویٰ کے بعد دوسری چیز جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کے لیے نکال کر یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ مال میری ملکیت نہیں اللہ کی ملکیت ہے میرے پاس اللہ کی عطا کردہ امانت ہے۔ امانت چونکہ امانت رکھنے والے کی ہدایت کے مطابق رکھی جاتی ہے اور استعمال میں لائی جاتی ہے اس لیے میری بھی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے مال کو اللہ کی امانت سمجھ کر اس طرح استعمال کروں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ چناچہ اگر اس بات کو قبول کرلیا جائے تو حلال و حرام کے تمام رشتے اپنی اپنی جگہ درست ہوجاتے ہیں۔ مال و دولت کی محبت اعتدال پر آجاتی ہے آدمی نہ اسراف کا شکار ہوتا ہے اور نہ بخل کا وہ اس لیے خرچ نہیں کرتا کہ اپنی نفسانیت کو غذا پہنچائے بلکہ اس لیے خرچ کرتا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل کرے اور وہ مال جمع کرنے کے لیے مال روک کر نہیں رکھتا بلکہ وہ مال کو حرام مصارف سے روکتا ہے اس طرح انسانی زندگی کی یہ بہت بڑی قوت بجائے انسانی زندگی کو نقصان پہنچانے کے انسان کے لیے قوت کا سامان بن جاتی ہے اور تیسری چیز فرمائی کہ ہماری سب آیات پر بلا کسی استثناء اور تاویل کے ایمان لائیں، مطلق ایمان کے بغیر تو تقویٰ اور زکوٰۃ کا بھی تصور نہیں ہوسکتا اور مطلق ایمان کے دعوی دار تو اہل کتاب بھی تھے یہاں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تم ایمان لانے میں بھی تعصب اور جانبداری کا ثبوت دیتے ہو کہ ہم صرف اپنے پیغمبرپر اور اپنی کتاب پر ایمان لائیں گے اور ان باتوں کو مانیں گے جنھیں ماننے کا حکم ہمارے پیغمبر اور کتاب نے دیا ہے۔ لیکن یہ تمہارا ایمان درحقیقت گروہی عصبیت پر مبنی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ تم کسی نبی کو مانتے ہو کسی کا انکار کردیتے ہو اور پھر اسی پر بس نہیں تم جس کتاب پر ایمان رکھتے ہو اس کے احکام میں سے صرف ان احکام کو مانتے ہو جن کا تمہاری معاشرتی ‘ معاشی اور قومی زندگی میں چلن پایا جاتا ہے لیکن جو احکام تمہارے تعصبات اور تمہارے مفادات اور تمہاری خواہشات سے متصادم ہوں تم انھیں ماننے سے انکار کردیتے ہو اور تمہارے اسی رویے کا یہ نتیجہ ہے کہ تم نے اپنی کتابوں میں تحریف کر ڈالی ہے تاکہ تمہیں کوئی اتنے بڑے جرم پر گرفت نہ کرسکے لیکن تم جب تک اللہ کے تمام احکام پر بغیر کسی تحفظ ذہنی کے ایمان نہیں لائو گے اس وقت تک تم دنیا اور آخرت کی بھلائی کے مستحق نہیں ہوسکتے بعض اہل علم نے اسلوبِ کلام پر غور کرتے ہوئے اسے ایک اور پہلو سے بھی دیکھا ہے، صاحب تدبر قرآن یہ کہتے ہیں کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ کی وضاحت وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ آیت کا یہ ٹکڑا خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یوں نہیں فرمایا کہ تَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوۃ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا ‘ بلکہ اسلوب بدل کر فرمایا وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیَتِنَا یُؤْمِنُوْنَٗ اسلوب کی اس تبدیلی سے مبتدا پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہے کہ خاص کر وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔ جو لوگ قرآن کے نظائر پر نگاہ رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اس عہد و میثاق کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے آئندہ آنے والے انبیا پر ایمان لانے کے لیے لیا گیا تھا اور جس کی وضاحت مائدہ کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے۔ وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمُتُمْ الصَّلٰوۃَ وااٰتَیْتُمُ الذَّکوٰۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرُتُمُوْھُمْ وَاَقْرَضُتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلِاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْل۔ (مائدہ 12) ” اور اللہ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کا اہتمام قائم رکھو گے ‘ زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں پر ایمان لائو گے اور ان کی تائید کرو گے اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو گے۔ اگر تم یہ کرو گے تو میں تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ پس جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا تو وہ اصل شاہراہ سے بھٹک گیا۔ “ یہ عہدیوں تو ان تمام نبیوں اور رسولوں پر مشتمل تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آئے لیکن اس میں خاص اشارہ اس نبی امی کی طرف تھا جس کی بعثت کی پیشین گوئی خود سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے، جیسا کہ بقرہ میں گزر چکا ہے، بڑی تصریح کے ساتھ فرمائی تھی۔ آل عمران میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے۔ وَاِذْااَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّں ْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مِعَکُمْ لِتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنّہٗ ط قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصرِیْ قَالُوْآ اَقْرَرْنَا قَالَ فاَشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ ( ال عمران : 18) ” اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے نبیوں کے باب میں میثاق لیا کہ ہم نے تم کو کتاب اور حکمت سے نوازا۔ پھر آئے گا تمہارے پاس ایک رسول تصدیق کرتا ہوا ان پیشین گوئیوں کی جو تمہارے پاس موجود ہیں تو تم اس پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کرو گے۔ پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس باب میں میری سونپی ہوئی ذمہ داری اٹھاتے ہو ؟ بولے ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو اس پر گواہ رہو، میں بھی تمہارے ساتھ اس کے گواہوں میں سے ہوں۔ “ یہی عہد و میثاق ہے جس کی طرف وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیَتِنَا یُؤْمِنُوْنَٗ کے الفاظ میں اشارہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست کے جواب میں یہ تصریح فرما دی کہ میری ابدی اخروی رحمت کے سزاوار وہ لوگ ٹھہریں گے جو میرے عہد شریعت پر قائم رہیں گے، آگے آنے والے نبیوں اور رسولوں کی تائید کریں گے اور ان میں سے جن کو میرے آخری رسول کی بعثت نصیب ہوگی وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کے مددگار اور خدمت گزار بنیں گے۔ حقیقت میں دونوں نقطہ نظر میں انجام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں اگر آیت کریمہ کے آخری حصہ میں ہم عہد شریعت کی طرف اشارہ مراد لیں تو تب بھی یہی مفہوم ہے کہ اب اہل کتاب کی نجات کا دارو مدار رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لانے میں ہے اور اگر اس سے یہ مراد لیں کہ اب ان کی اپنی مرضی کے ایمان سے کام نہیں چلے گا بلکہ انھیں بغیر کسی تحفظ ذہنی کے اللہ تعالیٰ کی تمام آیات اور احکام کو ماننا ہوگا تو اب جب کہ حضور ﷺ تشریف لا چکے ہیں اور آپ کی بعثت ہوچکی اور آج کے بعد آپ قیامت تک کے لیے نبی اور رسول ٹھہرے تو باقی دنیا کی طرح اہل کتاب کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب صرف حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا کافی نہیں ہوگا بلکہ اب تو سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول پر ایمان لایا جائے چناچہ اب وہی لوگ دنیا اور آخرت کی نعمتوں اور بھلائیوں کے مستحق ٹھہریں گے جو اس نبی امی پر ایمان لائیں اسلوبِ کلام اور سیاق کلام سے بات جب یہاں تک پہنچ گئی تو اگلی آیت کریمہ میں اسے کھول بھی دیا گیا اور بنی اسرائیل کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت بھی دے دی گئی۔
Top