Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 156
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَ١ؕ قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ
وَاكْتُبْ
: اور لکھدے
لَنَا
: ہمارے لیے
فِيْ
: میں
هٰذِهِ
: اس
الدُّنْيَا
: دنیا
حَسَنَةً
: بھلائی
وَّ
: اور
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
اِنَّا
: بیشک ہم
هُدْنَآ
: ہم نے رجوع کیا
اِلَيْكَ
: تیری طرف
قَالَ
: اس نے فرمایا
عَذَابِيْٓ
: اپنا عذاب
اُصِيْبُ
: میں پہنچاتا ہوں (دوں)
بِهٖ
: اس کو
مَنْ
: جس
اَشَآءُ
: میں چاہوں
وَرَحْمَتِيْ
: اور میری رحمت
وَسِعَتْ
: وسیع ہے
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر شے
فَسَاَكْتُبُهَا
: سو میں عنقریب لکھدوں گا
لِلَّذِيْنَ
: ان کے لیے جو
يَتَّقُوْنَ
: ڈرتے ہیں
وَيُؤْتُوْنَ
: اور دیتے ہیں
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
هُمْ
: وہ
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیات پر
يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیئے او آخرت کی بھی ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا پروردگار نے ارشاد فرمایا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔
وَاَکْتُبْ لَنَا فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَط قَالَ عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ ج وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍط فَسَاَ کْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ (الاعراف : 156) ” اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیئے او آخرت کی بھی ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا پروردگار نے ارشاد فرمایا سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے “۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا اور اللہ کا جواب اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری قوم کے لیے دعا فرمائی اس لیے کہ پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے وہ اس کی دنیوی اور اخروی فلاح کا سب سے زیادہ حریص ہوتا ہے وہ اللہ سے ہمیشہ اس کے لیے ایمان و عمل کی دعائیں کرتا ہے دنیوی کامیابیاں مانگتا ہے اخروی فوز و فلاح کے لیے التجائیں کرتا ہے یہاں بھی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے حسنۃ کی دعامانگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کے جواب میں پروردگار نے اپنے کچھ اصول بیان فرمائے سب سے پہلے یہ بات فرمائی کہ میں جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں اور قرآن کریم کی دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چاہنا ہمیشہ اس کی صفت عدل کے مطابق ہوتا ہے ‘ اس کے عدل کی روایت یہ ہے کہ وہ گناہ گار بندوں کو بھی جلدی سزا نہیں دیتا انتہائی بگڑے ہوئے معاشرے میں بجائے عذاب بھیجنے کے اپنے پیغمبر بھیجتا ہے اور پیغمبر ہمیشہ اللہ کی رحمت کی نوید بن کر آتے ہیں وہ زندگی کا ہر دکھ اٹھا کر ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں ہدایت کا ایک ایک راستہ ان کے سامنے روشن کرتے ہیں اچھائی اور برائی ان کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں وہ قوم اگر ان کی دعوت کو قبول کرلیتی ہے تو اللہ کی رحمتوں کی مورد بن جاتی ہے اور وہ اگر قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو تب بھی انھیں مہلت پر مہلت دی جاتی ہے کبھی انھیں مصیبتوں میں مبتلا کر کے اللہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ مصیبتوں کی وجہ سے ان کے دل نرم پڑیں اور وہ ایمان لے آئیں اور اگر یہ مصیبتوں کا نزول بھی انھیں ایمان کی طرف راغب نہیں کرتا تو پھر انھیں خوشحالیوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ شائد اس طرح اللہ کے احسانات کے ممنون ہو کر شکر گزار بن جائیں لیکن جب ان کی سرکشی اور تمرد انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور وہ پیغمبر کو قتل کرنے کے در پے ہوجاتے ہیں تو تب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا ان پر برستا ہے چناچہ یہ وہ قانون ہے جس کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں یعنی میرا چاہنا میری صفت عدل کے تابع ہوتا ہے اور میرا عدل بندوں کو عذاب دینے میں کبھی جلدی نہیں کرتا انھیں ہر ممکن طریقے سے سمجھنے کا موقع دیتا ہے یہی قانون بنی اسرائیل کے ساتھ بھی ہے انھیں بھی آپ کی دعوت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع دیا جائے گا جب تک وہ تمرد کی انتہاء کو نہیں پہنچیں گے ہمارا عذاب ان کی طرف متوجہ نہیں ہوگا اور دوسری بات یہ فرمائی کہ میرا عذاب بندوں کی انتہائی سرکشی اور تمرد کے نتیجے میں آتا ہے ورنہ پروردگار کا عام طریقہ رحمت کا طریقہ ہے۔ اس کا نظام عالم اس کی رحمت پر قائم ہے اس کا غضب تو صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندے اپنی سرکشی کے باعث ہر طرح سے اپنے آپ کو اس کی رحمت سے محروم کرلیتے ہیں چناچہ جب ہم دنیا کے نظام کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز کو پہنچ رہی ہے جس کو بھی وجود کی نعمت ملی ہے جسے بھی زندگی کے امکانات میسر ہیں جسے بھی رزق سے نوازا جا رہا ہے یہ سب کچھ اس کی صفت رحمت ہی کا ظہور ہے اس نے زمین کو قوت روئیدگی سے مالا مال کیا ہے سورج کی کرنیں سمندر سے پانی کے ڈول بھر بھر کر فضاء میں ابر کی چادریں بچھاتی ہیں ‘ درخت پھلوں سے لدے ہوئے لذت کام و دہن کو دعوت دے رہے ہیں چاروں طرف سبزے کی مخملی چادریں بچھا دی گئی ہیں زمین سے چشمے ابال دئیے گئے ہیں مختلف قسم کے قد آور درخت چھتریاں تانے ٹھنڈک کا سامان کیے ہوئے ہیں ‘ پہاڑوں سے آبشاریں گر رہی ہیں لہلہاتی فصلیں غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہر دم آمادہ ہیں یہ جو چاروں طرف ایک خوان کرم پھیلا ہوا ہے یہ سب کچھ اس کی رحمت کا ہی تو فیضان ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ حواس کی نعمت بےپایاں، عقل جیسا جوہرِ کامل اور سب سے بڑھ کر وحیٔ الہٰی سے انسانوں کی راہنمائی کا سامان یہ اس کی رحمت کی وہ سخاوت ہے جس سے ہر کس و ناکس کو نوازا گیا ہے اور اس پر بھی مزید یہ کہ جب کوئی آدمی غلطی کرتا ہے یا اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو فوراً اس کی طرف سے گرفت نہیں آتی اگر پروردگار ہر غلطی پر گرفت فرمانے لگتا تو قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم روئے زمین پر کسی زندہ انسان کو چلتا پھرتا نہ دیکھتے کیونکہ کونسا انسان ہے جو غلطیوں سے مبرا ہے ؟ کونسی چال ہے جو لڑکھڑاہٹ سے پاک ہے ؟ کونسا خیال ہے جس میں بہکنے کا اندیشہ نہ ہو ؟ کونسا ارادہ ہے جس پر ناتمامی کا داغ نہ لگا ہو ؟ اگر ان تمام کوتاہیوں پر پروردگار پکڑنے لگتا تو اندازہ فرمایئے اس کا نتیجہ کیا ہوتا یہ اس کی رحمت کا ظہور ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے سنبھلنے کا موقع دیتا ہے اور اگر کبھی کسی کو پکڑتا بھی ہے تو فی الحقیقت وہ بھی اس شخص کی بھلائی کا پیش خیمہ ہوتا ہے میں نے ایک گوالے کو دیکھا وہ ایک حکیم صاحب کی دکان پر بیٹھا اول فول بک رہا تھا لوگ اسے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے اور اس کی جسارت کا عالم یہ تھا کہ وہ یہ کہتا تھا کہ شکر کس بات کا ؟ بھینسیں میری، چارہ میرا، سنبھالنے والے آدمی میرے، دودھ نکالنے اور بیچنے والے میرے اپنے ملازم، تو پروردگار کا شکر کس بات پر ادا کروں ؟ اچانک چھت سے ایک اینٹ پھسلی اور اس کے کندھے پر آ کر گری کندھا ٹوٹ گیا۔ ہسپتال پہنچایا گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ اگر اس کا بازو فوراً نہ کاٹا گیا تو زہر پھیل جائے گا چناچہ بازو کاٹ دیا گیا زخم مندمل ہونے کے بعد جب وہ بازار میں آیا تو ہر جاننے والے سے کہتا تھا کہ اللہ کے غضب سے ڈرو۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائو اس کی گرفت آتے دیر نہیں لگتی۔ اندازہ فرمائیے کہ ایک اینٹ نے اس شخص کی زندگی تبدیل کر ڈالی اگر وہ اپنے ڈگر پر چلتا رہتا تو اپنی عاقبت تباہ کرلیتا اب اس کی دنیا بھی بچ گئی اور آخرت بھی بچ گئی۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اس نظام عالم پر اصل حکمرانی اللہ کی رحمت کی ہے۔ چناچہ دنیا کی بھلائی بھی اسی کی رحمت سے ہے اور آخرت بھی اسی کی بھلائی سے ہے لیکن جس طرح دنیا میں اس بھلائی اور اس رحمت کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے رزق اس کی رحمت ہے لیکن اس کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ یہ انسان کا فرض ہے۔ علم اس کی کتنی بڑی رحمت ہے لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنا اور آنکھوں کو سینکنا پڑتا ہے اسی طرح آخرت میں بھی اس رحمت اور حسنۃ کو حاصل کرنے کے لیے زندگی کے وہ اطوارختیار کرنے پڑتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو عطا فرمائے ہیں۔ اس کا خلاصہ دیکھا جائے تو تین چیزیں ہیں جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے کہ میں آخرت کی بھلائی ان لوگوں کو دوں گا جو اپنے اندر تین صفات پیدا کریں گے۔ جن میں پہلی صفت تقویٰ ہے یعنی انسان اپنی فکری دنیا کو ہر طرف سے یک سو کر کے اپنے دل و دماغ میں ان بنیادی افکار کو بسا لے جنھیں ایمانیات اور اقدارِ حیات کہا جاتا ہے اور پھر ان کے سائے میں دل و دماغ کی اس طرح تربیت کرے کہ جس سے ہر فکری بت پاش پاش ہوجائے اور اللہ کی محبت کی جڑیں دل و دماغ میں پیوست ہوجائیں گناہ سے نفرت ہونے لگے اور نیکی کی طرف دل لپکتا جائے۔ اس طرح سے جب دل و دماغ کا تعلق ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کے ساتھ جڑ جائے گا تو زندگی کی منزل متعین ہوجائے گی اس کے فکری رشتے اللہ کے ساتھ استوار ہوجائیں گے اس کا طرز حیات اللہ کے رسول کی سنت کا آئینہ دار ہوجائے گا اور اس کے حسن و قبح کے معیارات وہی ٹھہریں گے جنھیں وحی الٰہی کی سند حاصل ہوگی۔ انسانی زندگی پر فکری حکمرانی کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ مال و زر کی محبت ہے یہ محبت حد سے بڑھ جائے تو سیرت و کردار کا بحران پیدا ہوجاتا ہے اس کا اعتدال پر رکھنا افکار کی صحت کے لیے بھی نہایت ضروری ہوتا ہے اور جہاں تک انسانوں کے درمیان رشتوں اور معاملات کا تعلق ہے اس کا تو بہت حد تک دارو مدار دولت دنیا کے ساتھ انسانی تعلق کے اعتدال پر ہے۔ اسی لیے آیت کریمہ میں تقویٰ کے بعد دوسری چیز جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ اپنے مال میں سے کچھ حصہ اللہ کے لیے نکال کر یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ مال میری ملکیت نہیں اللہ کی ملکیت ہے میرے پاس اللہ کی عطا کردہ امانت ہے۔ امانت چونکہ امانت رکھنے والے کی ہدایت کے مطابق رکھی جاتی ہے اور استعمال میں لائی جاتی ہے اس لیے میری بھی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے مال کو اللہ کی امانت سمجھ کر اس طرح استعمال کروں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ چناچہ اگر اس بات کو قبول کرلیا جائے تو حلال و حرام کے تمام رشتے اپنی اپنی جگہ درست ہوجاتے ہیں۔ مال و دولت کی محبت اعتدال پر آجاتی ہے آدمی نہ اسراف کا شکار ہوتا ہے اور نہ بخل کا وہ اس لیے خرچ نہیں کرتا کہ اپنی نفسانیت کو غذا پہنچائے بلکہ اس لیے خرچ کرتا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل کرے اور وہ مال جمع کرنے کے لیے مال روک کر نہیں رکھتا بلکہ وہ مال کو حرام مصارف سے روکتا ہے اس طرح انسانی زندگی کی یہ بہت بڑی قوت بجائے انسانی زندگی کو نقصان پہنچانے کے انسان کے لیے قوت کا سامان بن جاتی ہے اور تیسری چیز فرمائی کہ ہماری سب آیات پر بلا کسی استثناء اور تاویل کے ایمان لائیں، مطلق ایمان کے بغیر تو تقویٰ اور زکوٰۃ کا بھی تصور نہیں ہوسکتا اور مطلق ایمان کے دعوی دار تو اہل کتاب بھی تھے یہاں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ تم ایمان لانے میں بھی تعصب اور جانبداری کا ثبوت دیتے ہو کہ ہم صرف اپنے پیغمبرپر اور اپنی کتاب پر ایمان لائیں گے اور ان باتوں کو مانیں گے جنھیں ماننے کا حکم ہمارے پیغمبر اور کتاب نے دیا ہے۔ لیکن یہ تمہارا ایمان درحقیقت گروہی عصبیت پر مبنی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ تم کسی نبی کو مانتے ہو کسی کا انکار کردیتے ہو اور پھر اسی پر بس نہیں تم جس کتاب پر ایمان رکھتے ہو اس کے احکام میں سے صرف ان احکام کو مانتے ہو جن کا تمہاری معاشرتی ‘ معاشی اور قومی زندگی میں چلن پایا جاتا ہے لیکن جو احکام تمہارے تعصبات اور تمہارے مفادات اور تمہاری خواہشات سے متصادم ہوں تم انھیں ماننے سے انکار کردیتے ہو اور تمہارے اسی رویے کا یہ نتیجہ ہے کہ تم نے اپنی کتابوں میں تحریف کر ڈالی ہے تاکہ تمہیں کوئی اتنے بڑے جرم پر گرفت نہ کرسکے لیکن تم جب تک اللہ کے تمام احکام پر بغیر کسی تحفظ ذہنی کے ایمان نہیں لائو گے اس وقت تک تم دنیا اور آخرت کی بھلائی کے مستحق نہیں ہوسکتے بعض اہل علم نے اسلوبِ کلام پر غور کرتے ہوئے اسے ایک اور پہلو سے بھی دیکھا ہے، صاحب تدبر قرآن یہ کہتے ہیں کہ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ کی وضاحت وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ آیت کا یہ ٹکڑا خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یوں نہیں فرمایا کہ تَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوۃ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا ‘ بلکہ اسلوب بدل کر فرمایا وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیَتِنَا یُؤْمِنُوْنَٗ اسلوب کی اس تبدیلی سے مبتدا پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہے کہ خاص کر وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔ جو لوگ قرآن کے نظائر پر نگاہ رکھتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اس عہد و میثاق کی طرف اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے آئندہ آنے والے انبیا پر ایمان لانے کے لیے لیا گیا تھا اور جس کی وضاحت مائدہ کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے۔ وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ اَقَمُتُمْ الصَّلٰوۃَ وااٰتَیْتُمُ الذَّکوٰۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرُتُمُوْھُمْ وَاَقْرَضُتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلِاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْل۔ (مائدہ 12) ” اور اللہ نے فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کا اہتمام قائم رکھو گے ‘ زکوٰۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں پر ایمان لائو گے اور ان کی تائید کرو گے اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو گے۔ اگر تم یہ کرو گے تو میں تمہارے گناہ تم سے دور کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ پس جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا تو وہ اصل شاہراہ سے بھٹک گیا۔ “ یہ عہدیوں تو ان تمام نبیوں اور رسولوں پر مشتمل تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آئے لیکن اس میں خاص اشارہ اس نبی امی کی طرف تھا جس کی بعثت کی پیشین گوئی خود سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے، جیسا کہ بقرہ میں گزر چکا ہے، بڑی تصریح کے ساتھ فرمائی تھی۔ آل عمران میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے۔ وَاِذْااَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّنَ لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّں ْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مِعَکُمْ لِتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرَنّہٗ ط قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصرِیْ قَالُوْآ اَقْرَرْنَا قَالَ فاَشْھَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ ( ال عمران : 18) ” اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم سے نبیوں کے باب میں میثاق لیا کہ ہم نے تم کو کتاب اور حکمت سے نوازا۔ پھر آئے گا تمہارے پاس ایک رسول تصدیق کرتا ہوا ان پیشین گوئیوں کی جو تمہارے پاس موجود ہیں تو تم اس پر ایمان لائو گے اور اس کی مدد کرو گے۔ پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس باب میں میری سونپی ہوئی ذمہ داری اٹھاتے ہو ؟ بولے ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو اس پر گواہ رہو، میں بھی تمہارے ساتھ اس کے گواہوں میں سے ہوں۔ “ یہی عہد و میثاق ہے جس کی طرف وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیَتِنَا یُؤْمِنُوْنَٗ کے الفاظ میں اشارہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست کے جواب میں یہ تصریح فرما دی کہ میری ابدی اخروی رحمت کے سزاوار وہ لوگ ٹھہریں گے جو میرے عہد شریعت پر قائم رہیں گے، آگے آنے والے نبیوں اور رسولوں کی تائید کریں گے اور ان میں سے جن کو میرے آخری رسول کی بعثت نصیب ہوگی وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کے مددگار اور خدمت گزار بنیں گے۔ حقیقت میں دونوں نقطہ نظر میں انجام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں اگر آیت کریمہ کے آخری حصہ میں ہم عہد شریعت کی طرف اشارہ مراد لیں تو تب بھی یہی مفہوم ہے کہ اب اہل کتاب کی نجات کا دارو مدار رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لانے میں ہے اور اگر اس سے یہ مراد لیں کہ اب ان کی اپنی مرضی کے ایمان سے کام نہیں چلے گا بلکہ انھیں بغیر کسی تحفظ ذہنی کے اللہ تعالیٰ کی تمام آیات اور احکام کو ماننا ہوگا تو اب جب کہ حضور ﷺ تشریف لا چکے ہیں اور آپ کی بعثت ہوچکی اور آج کے بعد آپ قیامت تک کے لیے نبی اور رسول ٹھہرے تو باقی دنیا کی طرح اہل کتاب کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب صرف حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ پر ایمان لانا کافی نہیں ہوگا بلکہ اب تو سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول پر ایمان لایا جائے چناچہ اب وہی لوگ دنیا اور آخرت کی نعمتوں اور بھلائیوں کے مستحق ٹھہریں گے جو اس نبی امی پر ایمان لائیں اسلوبِ کلام اور سیاق کلام سے بات جب یہاں تک پہنچ گئی تو اگلی آیت کریمہ میں اسے کھول بھی دیا گیا اور بنی اسرائیل کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت بھی دے دی گئی۔
Top