Tafseer-e-Saadi - Ibrahim : 9
اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ١ۛؕ۬ وَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ۛؕ لَا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرَدُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ وَ قَالُوْۤا اِنَّا كَفَرْنَا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ وَ اِنَّا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ
اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا تمہیں نہیں آئی نَبَؤُا : خبر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے قَوْمِ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٍ : اور عاد وَّثَمُوْدَ : اور ثمود وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد لَا يَعْلَمُهُمْ : ان کی خبر نہیں اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ فَرَدُّوْٓا : تو انہوں نے پھیر لئے اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فِيْٓ : میں اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَقَالُوْٓا : اور وہ بولے اِنَّا كَفَرْنَا : بیشک ہم نہیں مانتے بِمَآ : وہ جو اُرْسِلْتُمْ : تمہیں بھیجا گیا بِهٖ : اس کے ساتھ وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَفِيْ : البتہ میں شَكٍّ : شک مِّمَّا : اس سے جو تَدْعُوْنَنَآ : تم ہمیں بلاتے ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف مُرِيْبٍ : تردد میں ڈالتے ہوئے
بھلا تم کو ان لوگوں (کے حالات) کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے (یعنی) نوح (علیہ السلام) اور عاد وثمود کی قوم ؟ اور جو ان کے بعد تھے جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں (جب) ان کے پاس پیغمبر نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیے (کہ خاموش رہو) اور کہنے لگے کہ ہم تو تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے قوی شک ہیں۔
جھٹلانے والی قوموں کے پاس جب ان کے رسول آئے اور انہوں نے ان کو جھٹلایا تو ان قوموں پر عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں ان کو جو سزا دے دی یہ عذاب لوگوں نے دیکھا اور سنا، پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس عذاب سے ڈراتے ہوئے فرماتا ہے : (آیت) ” کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، قوم نوح، عاد اور ثمود “ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت بسط و تفصیل سے ان کے واقعات ذکر فرمائے ہیں۔ (آیت) ” اور جو ان کے بعد ہوئے، جن کو صرف اللہ جانتا ہے “ انکی کثرت اور ان کی تاریخ مٹ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا (جآء تھم رسلھم بالبینت) ” ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے “ یعنی ان کے رسول ان کے پاس ایسے دلائل لے کر آئے جو ان کی تعلیمات کی صدقات پر دلالت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی رسول مبعوث فرمایا اس کو ایسی آیات عطا فرمائیں جو انسان کے بس میں نہ تھیں۔ جب ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان دلائل کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ انہوں نے نہایت تکبر کے ساتھ ان کو ٹھکرا دیا۔ (فردوآ ایدیھم فی افواھھم) ” پس لوٹائے انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں “ یعنی وہ اس وحی پر ایمان نہ لائے جو رسول لے کر آئے تھے انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کہی جو ان کے ایمان پر دلالت کرتی ہو۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ (آیت) ” تو یہ بجلی کی کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔ “ (وقالوآ) اور صراحت کے ساتھ اپنے رسولوں سے انہوں نے کہا : (آیت) ” ہم نے انکار کیا اس چیز کا جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا اور بیشک ہمیں اس چیز میں جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ایک خلجان میں ڈالنے والا شک ہے۔
Top