Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 19
وَ كَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ لِیَتَسَآءَلُوْا بَیْنَهُمْ١ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ١ؕ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ١ؕ فَابْعَثُوْۤا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّهَاۤ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْیَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَ لْیَتَؔلَطَّفْ وَ لَا یُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح بَعَثْنٰهُمْ : ہم نے انہیں اٹھایا لِيَتَسَآءَلُوْا : تاکہ وہ ایکدوسرے سے سوال کریں بَيْنَهُمْ : آپس میں قَالَ : کہا قَآئِلٌ : ایک کہنے والا مِّنْهُمْ : ان میں سے كَمْ لَبِثْتُمْ : تم کتنی دیر رہے قَالُوْا : انہوں نے کہا لَبِثْنَا : ہم رہے يَوْمًا : ایک دن اَوْ : یا بَعْضَ يَوْمٍ : ایک دن کا کچھ حصہ قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا لَبِثْتُمْ : جتنی مدت تم رہے فَابْعَثُوْٓا : پس بھیجو تم اَحَدَكُمْ : اپنے میں سے ایک بِوَرِقِكُمْ : اپنا روپیہ دے کر هٰذِهٖٓ : یہ اِلَى : طرف الْمَدِيْنَةِ : شہر فَلْيَنْظُرْ : پس وہ دیکھے اَيُّهَآ : کون سا ان میں سے اَزْكٰى : پاکیزہ تر طَعَامًا : کھانا فَلْيَاْتِكُمْ : تو وہ تمہارے لیے لے آئے بِرِزْقٍ : کھانا مِّنْهُ : اس سے وَلْيَتَلَطَّفْ : اور نرمی کرے وَ : اور لَا يُشْعِرَنَّ : اور وہ خبر نہ دے بیٹھے بِكُمْ : تمہاری اَحَدًا : کسی کو
اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تم اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کونسا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔
(آیت نمبر 19) (وکذلک بعثنھم) یعنی اسی طرح ہم نے ان کو ان کی طویل نیند سے بیدار کیا (لیتساء لو ابینھم) ” تاکہ آپس میں ایک یک دوسرے سے دریافت کریں۔ “ یعنی سونے کی مدت کے بارے میں حقیقت معلوم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے پوچھیں۔ ( قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوما اوبعض یوم ) ” ان میں سے ایک نے کہا ‘ تم کتنی مدت ٹھہرے ؟ انہوں نے کہا ‘ ہم ٹھہرے ایک دن یا ایک دن سے کم۔ “ یہ قاہل کے ظن پر مبنی ہے گویا ان کو اپنی مدت کی طوالت کے بارے میں اشتباہ واقع ہوگیا تھا ‘ اس لیے (قالوا ربکم اعلم بما لبثتم ) ” انہوں نے کہا تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے جتنی مدت تم ٹھہرے “ پس انہوں نے اپنے علم کو اس ہستی کی طرف لوٹا دیا جس کا علم اجمالا اور تفصیلا ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے سوئے رہنے کی مدت سے ان کو مطلع کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کردیا تھا تاکہ وہ اس مدت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھیں پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور اپنے اپنے مبلغ علم کے مطابق انہوں نے کلام کیا اور ان کی آپس میں بحث کا نتیجہ یہ رہا کہ ان کے سونے کی مدت کا معاملہ مشتبہ ہی رہا۔ یہ لازمی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یقینی طور پر آگاہ کیا ہوگا اور ہمیں یہ بات ان کے بیدار کیے جانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے معلوم ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو کوئی ان معاملات میں حقیقت کا طلب گار ہوتا ہے جن کا جاننا مطلوب ہے اور اس کے لیے امکان بھر کوشش بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان معاملات کو اس پر واضح کردیتا ہے اور بعد میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ (وکذلک اعثرنا علیھم لیعلموا ان وعد اللہ حق و انا الساعۃ لا ریب فیھا) (الکھف (21/18” اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور بیشک قیامت کی گھڑی ضرور آئے گی۔ “ اگر ان کے حال کے بارے میں آگاہی نہ ہوئی ہوتی تو ان کے لیے مذکورہ واقہ میں کوئی دلیل نہ ہوتی۔ پھر جب انہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا اور ان کے درمیان وہ سوال جواب ہوا جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے تو انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کچھ سکے ‘ یعنی درہم دے کر ‘ جو ان کے پاس تھے ‘ کھانا خرید کر لانے کے لیے اس شہر میں بھیجا جہاں سے وہ نکل کر آئے تھے اور اس سے کہا کہ وہ اچھا اور لزیز ترین کھانا منتخب کر کے لائے ‘ نیز اس کے شہر جانے ‘ کھانا خرید نے اور واپس لوٹنے میں ایسا نرم رویہ اختیار کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی چھپائے اور اپنے بھائیوں کے حال کو بھی مخفی رکھے اور کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم نہ ہو۔ ان کے سامنے یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں کو اگر ان کی اطلاع ہوگئی و اس کے نتیجے میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا وہ ان دو امور میں سے ایک ہوگا۔ یا تو وہ ان کو سنگسار کر کے نہایت برے طریقے سے ان کو قتل کردیں گے کیونکہ انہیں ان پر اور ان کے دین پر سخت غصہ ہے۔ یا انہیں تعذیب اور آزمائش میں مبتلا کر کے ان کو اپنے دین میں واپس لانے کی کوشش کریں گے اور اس حال میں وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے بلکہ وہ اپنے دین ‘ دنیا اور آخرت کے بارے میں سخت خسارے میں رہیں گے۔ یہ دو آیات کریمہ متعدد فوائد پر دلالت کرتی ہیں : (1) حصول علم اور علمی مباحثہ پر ترغیب کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسی خاطر اصحاب کہف کو دوبارہ زندہ کیا۔ (2) جب بندے پر علم مشتبہ ہوجائے تو اس کا ادب یہ ہے کہ وہ اس علم کو اس شخص کی طرف لوٹا دے جو اس کا عالم ہے اور خود اپنی حد پر ٹھہر جائے۔ (3) خریدو فروخت میں وکالت اور اس میں شراکت صحیح ہے۔ (4) اچھی چیزیں اور لذیذ کھانے کھانا جائز ہے جبکہ ان میں اسراف نہ ہو جو ممنوع ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فلینظر ایھا ازکی طعاما فلیا تکم برزق منہ) ” پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں سے ملتا ہے پس وہ تمہارے لیے وہیں سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آئے۔ “ خاص طور پر جبکہ انسان کو اس کے سوا کوئی اور کھانا موافق نہ آتا ہو۔ شاید یہی آیت کریمہ ان مفسرین کے قول کی بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اصحاب کہف بادشاہوں کی اولاد تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کھانا لانے والے کو اچھا اور لذیذ کھانا لانے کا حکم دیا تھا کیونکہ خوشحال اور بڑے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ اچھا کھانا تناول کرتے ہیں۔ (5) جب دین میں ابتلا اور فتنہ کا موقع ہو تو اس سے بچنے چھپنے اور فتنوں کی جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ‘ نیز یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے دینی بھائیوں کو چھپائے۔ (6) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دین میں شدید رغبت تھی وہ اپنے دینے بارے میں ہر قسم کے فتنہ سے دور بھاگتے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑ دیا تھا۔ (7) ان آیات کریمہ میں اس شرکا ذکر ہے جو ضرر اور ان مفاسد پر مشتمل ہے جو اس کی نا پسندیدگی کا باعث اور اس کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ کہ یہ طریقہ تمام متقدمین اور متاخرین اہل ایمان کا طریقہ ہے کیونکہ اہل کہف نے کہا تھا : (ولن تفلحو اذا ابدا) اگر وہ تمہیں اپنی ملت میں واپس لوٹا دیں تو تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے۔
Top