Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 37
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاؕ
قَالَ : کہا لَهٗ : اس سے صَاحِبُهٗ : اس کا ساتھی وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کر رہا تھا اَكَفَرْتَ : کیا تو کفر کرتا ہے بِالَّذِيْ : اس کے ساتھ جس نے خَلَقَكَ : تجھے پیدا کیا مِنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر سَوّٰىكَ : تجھ پورا بنایا رَجُلًا : مرد
تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا
(آیت نمبر (37 یعنی اس کے صاحب ایمان ساتھی نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے اور اس کو اس کی ابتدائی حالت یاد دلاتے ہوئے جس حالت میں اللہ تعالیٰ اسے وجود میں لایا تھا۔۔۔ کہا : (اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفۃ ثم سوئک رجلاً ) ” کیا تو نے اس ذات کا انکار کیا جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے، پھر قطرے سے، پھر پورا کردیا تجھ کو مرد۔ “ پس وہی ہے جس نے تجھے وجود بخشا اور تجھ تک اپنی نعمتیں پہنچائیں، تجھے ایک ہئیت سے دوسری ہئیت میں منتقل کیا یہاں تک کہ تجھے کامل اعضائے محسوسہ و معقولہ کے ساتھ آدمی بنا کر پیدا کیا، تیرے لئے اسباب میں آسانی پیدا کی اور تجھے دنیا کی نعمتیں مہیا کیں۔ تو اپنی قوت و اختیار سے کبھی یہ دنیا حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر فضل و کرم کیا ہے۔ تب تیرے لئے کیونکر یہ مناسب ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر قطعہ سے جنم دیا اور نک سک درست کر کے آدمی بنایا اور تو اس کی نعمت کو جھٹلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ تیرے مرنے کے بعد وہ تجھ کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور اگر اس نے تجھے دوبارہ زندہ کیا تو تجھے تیرے اس باغ سے بہتر باغ عطا کرے گا اور یہ ایسی بات ہے جو تیرے لئے مناسب اور تیرے لائق نہیں۔ جب اس کے مومن ساتھی نے دیکھا کہ وہ اپنے کفر اور سرکشی پر جما ہوا ہے تو اس نے مجادلات و شبہات کے وارد ہونے کے وقت اپنے رب کی شکر گزاری اور پانے دین کا اعلان کرتے ہوئے بتایا : (لکنا ھو اللہ ربی ولا اشرک بربی احداً ) ” میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ میرا رب ہے، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ “ پس اس نے اپنے رب کی ربوبیت اور اس ربوبیت میں اس کی یکسائی اور اس کی اساعت و عبادت کے ضروری ہونے کا اقرار کیا اور یہ کہ وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائے گا، پھر اس نے آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان اور اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اگرچہ اس کے پاس مال اور اولاد قلیل ہے، لیکن حقیقی نعمت ایمان اور اسلام ہی ہے اور ان کے سوا ہر چیز زائل ہوجانے والی ہے اور سزا اور عقوبت کی باعث ہے، چناچہ فرمایا :
Top