Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 52
وَ یَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَهُمْ وَ جَعَلْنَا بَیْنَهُمْ مَّوْبِقًا
وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْلُ : وہ فرمائے گا نَادُوْا : بلاؤ شُرَكَآءِيَ : میرے شریک (جمع) الَّذِيْنَ : اور وہ جنہیں زَعَمْتُمْ : تم نے گمان کیا فَدَعَوْهُمْ : پس وہ انہیں پکاریں گے فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا : تو وہ جواب نہ دیں گے لَهُمْ : انہیں وَجَعَلْنَا : اور ہم بنادیں گے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان مَّوْبِقًا : ہلاکت کی جگہ
اور جس دن خدا فرمائے گا کہ (اب) میرے شریکوں کو جن کی نسبت تم گمان (الوہیت) رکھتے تھے بلاؤ تو وہ ان کو بلائیں گے مگر وہ انکو کچھ جواب نہ دینگے اور ہم ان کے بیچ میں ایک ہلاکت کی جگہ بنادیں گے
آیت 52 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے :” میں نے شیاطین (اور ان گمراہی پھیلانے والوں) کو گواہ نہیں بنایا “ (خلق السموت والارض ولاخلق انفسھم ) ” آسمانوں، زمین اور ان کی اپنی تخلیق پر۔ “ یعنی میں نے ان کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا نہ ان سے مشورہ لیا پھر وہ ان میں سے کسی چیز کے خلاق کیسے کہلا سکتے ہیں ؟ بلکہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر اور حکمت و تقدیر میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام اشیاء کا خلاق ہے اور وہی اپنی حکمت سے ان میں تصرف کرتا ہے پس کیسے شیاطین کو اللہ کے شریک ٹھہرایا جاتا ہے ان کو والیو مددگار بنایا جاتا ہے اور ان کی اسی طرح اطاعت کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ ٰکی جاتی ہے، حالانکہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے نہ کائنات کی پیدئاش پر وہ حاضر تھے اور نہ کائنات کی پیدئاش پر اللہ تعالیٰ کے معاون و مددگار تھے ؟ اسی لئے فرمایا : (وما کنت متخذ المضلین عضدا) ” اور نہیں ہوں میں کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناؤں “ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام میں معاونین کا ہونا، اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں اور نہ یہ مناسب ہے کہ وہ تدبیر کائنات کا کچھ حصہ ان کے سپرد کر دے کیونکہ وہ تو مخلوق کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے رب کی عداوت پر کمربستہ رہتے ہیں، اس لئے وہ اسی لائق ہیں کہ وہ ان کو دور رکھے اور اپنے قریب نہ آنے دے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جنہوں نے دنیا میں اس کے ساتھ شرک کیا تھا اور ان کے شرک کا پوری طرح ابطال کیا اور مشرک پر جہالت اور سفاہت کا حکم لگایا تو قیامت کے روز ان کے خود ساختہ شریکوں کی معیت میں ان کا جو حال ہوگا وہ بھی بیان کردیا، چناچہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا : (نادوا شرکآء ی) ” پکارو میرے شریکوں کو۔ “ یعنی تمہارے اپنے زعم باطل کے مطابق میرے جو شریک ہیں ان سب کو بلا لو۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں یعنی اب ان خود ساختہ شریکوں کو بلا لو تاکہ تمہیں کوئی فائدہ دے سکیں اور تمہیں ان سختیوں سے نجات دلا سکیں۔ (فدعوھم فلم یستجیبوالھم) ” پس یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو جواب نہ دیں گے۔ “ اس لئے کہ اس روز اقتدار اور فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا کسی ہستی کے پاس ذرہ بھر بھی اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو کوئی نفع پہنچا سکے : (وجعلنا بینھم) ” اور کردیں گے ہم ان کے درمیان “ یعنی مشرکین اور ان کے شریکوں کے درمیان (موبقاً ) ” ہلاکت کا سامان “ یعنی ہلاکت کا گڑھا ان کے درمیان حائل کردیں گے جو ان کو جدا کر دے گا اور ان کو ایک دوسرے سے دور کر دے گا۔ اس وقت ان کی ایک دوسرے کے ساتھ عداوت ظاہر ہوجائے گی، ان کے خود ساختہ شرکاء ان کا انکار کریں گے اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” جب تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔ “
Top