Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
(آیت نمبر (9 یہ استفہام ‘ نفی اور نہی کے معنیٰ میں ہے۔ یعنی اصحاب کہف کے قصہ اور ان کے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے انہونی بات ‘ اس کی حکمت میں انوکھا واقعہ نہ سمجھو اور نہ یہ سمجھو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بیشمار تعجب خیز معجزات ہیں جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں۔ نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس سے اور بہت سے معجزات ہیں ‘ جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس سے اور بہت سے معجزات ہیں ‘ اس لیے رف اس ایک معجزے پر تعجب کے ساتھ ٹھہر جاتا علم و عقل میں نقص ہے۔ بندہ مومن کا وظیفہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات میں غور و فکر کرے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو غورو فکر کی دعوت دی ہے کیونکہ غورو فکر ایمان کی کلید اور علم و ایقان کا راستہ ہے۔ اصحاب کہف کو (الکھف) اور ( الرقیم) کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ کہف سے مراد پہاڑ کے اندر ایک غار ہے اور رقیم سے مراد کتبہ ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کا واقعہ درج تھا کہ وہ طویل زمانے تک اس غار میں پڑے رہے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا واقعہ نہایت مجمل طور پر ذکر کیا اور پھر اس کی تفصیل بیان کی ‘ چناچہ فرمایا : (اذاوی الفتیۃ الی الکھف) ” جب جا بیٹھے وہ نوجوان غار میں “ اور یہ نوجوان اس غار میں پناہ گزین ہو کر اپنی قوم کی تعذیب اور فتنے سے بچنا چاہتے تھے۔ (فقالو ربنا اتنا من لدنک رحمۃ ) ” پس انہوں نے کہا ‘ اے ہمارے رب ! ہمیں نیکی کی توفیق دے۔ ( و ھی لنا من امر نا رشد ) ” اور ہمارے کام میں درستی پیدا کر۔ “ یعنی رشدو ہدایت تک پہنچانے والا ہر راستہ ہمارے لیے آسان فرما دے اور ہمارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کر۔ پس وہ کوشش کے ساتھ اپنی قوم کی تعذیب اور فتنہ سے فرار ہو کر ایسے محل و مقام کی طرف بھاگے جہاں ان کے لیے چھپنا ممکن تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور اپنے نفس اور مخلوق پر بھروسہ کیے بغیر ‘ اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے آسانی کا سوال کرتے رہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور ان کے لیے ایک ایسا امر مقرر کردیا جو ان کے گمان میں بھی نہ تھا۔ فرمایا : (فضربنا علی اذانھم فی الکھف ) ” پس تھپک دیے ہم نے ان کے کان اس غار میں “ یعنی کہ انہیں سلا دیا (سنین عددا) ” چند سال گنتی کے “ اور یہ تین سونو سال کا عرصہ ہے۔ اس نیند میں ان کے دلوں کے لیے اضطراب اور خوف سے اور ان کی قوم سے حفاظت تھی۔ (ثم بعثنھم) ” پھر ہم نے ان کو اٹھایا “ یعنی پھر ہم نے ان کو ان کی نیند سے بیدار کیا (لنعلم ای الحزبین احصی لما لبثوا امدا) ” تاکہ ہم جانیں کہ دونوں گروہوں میں سے کس نے یاد رکھی ہے وہ مدت ‘ جس میں وہ ٹھہرے رہے “ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ ان میں سے اپنی مدت کی مقدار کو کون ٹھیک طرح سے شمار کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وکذلک بعثنھم لیتساء لوابینھم) (الکھف (19/18:” اور اس طرح ہم نے انہیں دوبارہ اٹھایا تاکہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں “ یعنی اپنے سوئے رہنے کی مدت کی مقدار ‘ ضبط حساب اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ‘ اس کی حکمت اور رحمت کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کریں۔۔۔ اور اگر وہ دائمی طور پر سوئے رہتے تو ان کے واقعہ کی کسی کو کوئی اطلاع نہ ہوتی۔
Top