Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک (فرقے) کیلئے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو تم جہاں ہو گے خدا تم سب کو جمع کرلے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
یعنی ہر ملت اور ہر دین والوں کے لئے ایک جہت مقرر ہے وہ اپنی عبادت میں اس کی طرف منہ کرتے ہیں۔ استقبال قبلہ کوئی بڑا معاملہ نہیں، اس لئے کہ یہ ان شریعتوں میں سے ہے جو احوال و زمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، اس میں نسخ اور ایک جہت سے دوسری جہت میں منتقل ہونا بھی داخل ہے، لیکن اصل اور اہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کا تقرب اور اس کے قرب میں حصول درجات ہے یہی سعادت کا عنوان اور دلایت کا منشور ہے۔ یہی وہ وصف ہے کہ اگر نفوس اس سے متصف نہ ہوں تو دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑجاتے ہیں جیسے اگر نفوس اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیں تو یہی حقیقی منافع ہے۔ تمام شریعتوں میں یہ متفق علیہ امر ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے، کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، کامل ترین احوال میں ان کو واقع کرنے اور نہایت سرعت سے ان کی طرف بڑھنے کو متضمن ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا پس سابقون (سبقت کرنے والے) تمام مخلوق میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔ اور نیکیوں کا لفظ تمام فرائض، نماز، نوافل، روزے، زکوۃ، حج وعمرہ، جہاد اور لوگوں کو نفع پہنچانے وغیرہ کو شامل ہے۔ جب بات یہ ہے کہ سب سے طاقتور داعیہ جو نفوس کو نیکیوں میں مسابقت و مسارعت پر آمادہ کرتا ہے اور انہیں نشاط عطا کرتا ہے، وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں پر عطا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (آیت) اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ” تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اللہ تم سب کو لے آئے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے “ وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے تمہیں اکٹھا کرے گا۔ پھر ہر شخص کو اسکے عمل کا بدلہ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) لیجزی الذین اساء وا بما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی (النجم 31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کئے ہیں ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کئے ہیں ان کو نیک بدلہ دے۔ “ اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر اس فضیلت کو اختیار کرنا چاہیے جس سے کوئی عمل متصف ہوسکتا ہے، مثلاً اول وقت پر نماز ادا کرنا، روزے، حج، عمرہ اور زکوۃ کی ادائیگی سے فوری طور پر بری الذمہ وہنا۔ تمام عبادات کی سنن و آداب کو پوری طرح ادا کرنا۔ پس کتنی جامع اور کتنی نفع مند آیت ہے۔
Top