Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے
(16-22) اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرماتا ہے کہ اس نے اپنے خلیل ابراہیم ( علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تھے، چناچہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا (عبدو اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک مانو صرف اسی کی عبادت کرو اور جو کچھ وہ تمہیں حکم دیتا ہے اس کی اطاعت کرو ” اور اس سے ڈرو “ کہ وہ تم پر ناراض ہو کر تمہیں عذاب دے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ تم ان امور کو چھوڑ دو جو اس کی ناراضی کا بارعث ہیں ” یہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ ” تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ یعنی عبادت اور تقویٰ کو اختیار کرنا ان کو ترک کرنے سے بہتر ہے۔ یہ اسم تفصیل کے ایسے باب میں سے ہے جس کے دوسری طرف کچھ نہیں ہوتا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا تقویٰ ترک کرنے میں کسی طرح بھی کوئی بھلائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقویٰ صرف اس لئے لوگوں کیلئے بہتر ہے کہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ ” اگر تم اس کا علم رکھتے ہو۔ “ پس تمام امور میں خوب غور کرو اور دیکھو کہ ان میں سے کون سا امر ترجیح کے لائق ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور تقویٰ کا حکم دیا ہے اس لئے ان کو بتوں کی عبادت سے روکا ہے اور ان کے تقص اور عبودیت کے لئے ان کے عدم استحقاق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :” تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑتے ہو۔ “ تم خود اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر ان بتوں کو تخلیق کرتے ہو پھر تم ان کے معبودوں والے نام رکھتے ہو اور پھر تم ان کی عبادت اور تمسک کے لئے جھوٹے احکام گھڑتے ہو ” بیشک جن کو تم اللہ کے سواپوجتے ہو۔ وہ ناقص ہیں ان میں کوئی بھی اسی صفت نہیں ہے جو ان کی عبادت کی متقتضی ہو۔ ” وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ “ گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہم پر واضح ہوچکا ہے کہ یہ بت گھڑے ہوئے اور ناقص ہیں جو کسی نفع و نقصان کے مالک ہیں نہ موت وحیات کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ دوبارہ اٹھانے ہی کا پس جس ذات کے یہ اوصاف ہوں وہ ذرہ بھر عبادت کی مستحق نہیں۔ قلوب ایسے معبود کے طالب ہوتے ہیں جن کی وہ عبادت کریں اور ان سے اپنی حوائج کا سوال کریں پس ان کے جواب میں اس ہستی کی عبادت کی ترغیب دی گئی ہے جو عبادت کی مستحق ہے پس اللہ ہی کے ہاں رزق طلب کرو۔ کیونکہ وہی رزق میسر اور مقدر کرتا ہے اور وہی اس شخص کی دعا قبول کرتا ہے جو اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے لئے اس سے دعا کرتا ہے۔” اور اسی کی عبادت کرو “ جس کا کوئی شریک نہیں کیونکہ وہ کامل نفع و نقصان دینے والا اور تدبیر کائنات میں متفرد ہے ” اور اسی کا شکر کرو “۔ کیونکہ جتنی بھی تمہیں نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا تمام مخلوق کو حاصل ہو رہی ہیں صرف اللہ تعالٰٰی کی طرف سے ہیں اور جو بھی مصیبت ان سے دورہوتی ہے ان کو دور کرنے والا وہی ہے ” تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ تب وہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزادے گا اور جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے رہے ہو اس کے بارے میں تمہیں آگاہ کرے گا پس تم شرک کی حالت میں اس کی خدمت میں حاضر ہونے سے بچو اور ان امور میں رغبت رکھو جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور جب تم اس کے پاس حاضر ہوگے تو وہ تمہیں ان پر ثواب عطا کرے گا۔ ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ یعنی قیامت کے روز اس کا اعادہ کرے گا۔ ” بیشک مخلوق کا اعادہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے۔ وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور ایسا کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے۔ “ آپ زمین میں چلو پھرو “ اپنے قلب وبدن کے ساتھ ” پھر غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے کا ئنات کی ابتدا کی “ تم دیکھو گے کہ انسانوں کے گروہ تھوڑا تھوڑا کر کے وجود میں آتا رہے ہیں تم دیکھو گے کہ درخت اور نباتات وقتا فوقتا جنم لے رہے ہیں تم بادلوں اور ہواؤں کو باؤ گے کہ وہ لگاتار اپنی تجدید کے مراحل میں رہتے ہیں بلکہ تمام مخلوق دائمی طور پر ابتدائے تخلیق اور اعادۂ تخلیق کے دائرے میں گردش کر رہی ہے ان کی موت صغریٰ یعنی نیند کے وقت ان پر غور کرو کہ رات اپنی تاریکیوں کے ساتھ ان کو ڈھانپ لیتی ہے تب تمام حرکات ساکن اور تمام آوازیں منقطع ہوجاتی ہیں۔ اپنے پستروں اور ٹھکانوں میں تمام مخلوق کی حالت یوں ہوتی ہے جسیے وہ مردہ ہوں۔ رات بھر وہ اس حالت میں رہتے ہیں حتٰی کہ جب صبح نمودار ہوتی ہے تو وہ اپنی نیند سے بیدار اور اپنی اس عارضی موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جاتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہوئے اٹھتے ہیں ” تعریف ہے اللہ کی جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف قبر سے اٹھ کر جانا ہے۔ “ بنا بریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : ” پھر اللہ ہی ‘ یعنی اس اعادہ تخلیق کے بعد دوسری نئی پیدا کرے گا۔ “ یہ اسی زندگی ہے جس میں موت ہے نہ نیند اس زندگی کو جنت یا جہنم میں خلود اور دوام حاصل ہوگا۔ ” بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی قدرت کسی چیز میں عاجز نہیں جس طرح وہ تخلیق کی ابتدا پر قادر ہے اسی طرح تخلیق کے اعادہ پر اس کا قادر ہونا زیادہ اولیٰ اور زیادہ لائق ہے۔” وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے۔ “ یعنی حکم جزائی میں وہ متفرد ہے۔ یعنی وہ اکیلا ہے جو اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرتا ہے انہیں اپنی وسیع رحمت کے سائے میں لیتا ہے اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔ ” اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “ یعنی تم اس گھر کی طرف لوٹو گے جہاں تم پر اس کے عذاب یا رحمت کے احکام جاری ہوں گے۔ اس لئے اس دنیا میں نیکیوں کا اکتساب کرلو جو اس کی رحمت کا سبب ہیں اور اس کی نافرمانیوں سے دور ہو جو اس کے عذاب کا باعث ہیں۔” اور تم اس کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں۔ “ یعنی اے جھٹلانے والے لوگو جو گناہوں کے ارتکاب کی جسارت کرتے ہو ! یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ تم سے غافل ہے یا تم زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکوگے۔ تمہاری قدرت واختیار تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ تمہارے نفس نے جن امورکومزین کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات کے بارے میں تمہیں فریب میں مبتلا کر رکھا ہے وہ تمہیں دھوکے میں نہ رکھیں۔ کائنات کے تمام گوشوں میں تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہ کرسکو گے۔” اور نہ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی دوست ہے۔ “ جو تمہارے سرپرستی کرے اور تمہیں تمہارے دینی اور دنیاوی مصالح حاصل ہوں۔” اور نہ کوئی مددگار “ جو تمہاری مدد کرے اور تمہاری تکالیف کو دور کرے۔
Top