بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
آیت 1 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا نہیں کہ جس کسی نے کہہ دیا کہ “ وہ مومن ہے “ اور وہ ایمان کا دعویٰ کرے .... اسے ایسی حالت میں باقی رکھا جائے کہ جس میں وہ آزمائش وابتلا سے سلامت رہے گا اور اسے کوئی ایسا امر پیش نہیں آئے گا جو اس کے ایمان اور اس کی فروع کو مضطرب کرے اور اگر معاملہ اسی طرح ہو تو سچے اور جھوٹے حق اور بطل میں امتیاز نہیں ہوسکتا لیکن اس کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ اہل ایمان کو خوشحالی اور تنگدستی راحت اور مشقت بشاشت اور نا گواری فراخی اور محتاجی بعض اوقات دشمنوں کی فتح و غلبہ اور دشمنوں کے خلاف قول وفعل کے ساتھ جہاد وغیرہ جیسی آزمائشوں کے ذریچے سے آزماتا ہے جو تمام تر شبہات کے فتنے کی طرف لوٹتی ہیں جو عقیدے کی معارض ہیں اور شہوات (کے فتنے) کی طرف لوٹتی ہیں جو ارادے کی معارض ہیں۔ شبہات کے وارد ہونے کے وقت جس کسی کا ایمان مضبوط رہتا ہے اور متزلزل نہیں ہوتا اور وہ اس حق کے ذریعے سے شبہات کو دور کردیتا ہے جو اس کے پاس ہے اور شہوات کے وارد ہونے کے وقت ..... جو گناہ اور معاصی کے موجب اور داعی ہیں یا وہ اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم سے روگرداں کرتے ہیں ..... وہ ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے اپنی شہوات کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو یہ چیز اس کے ایمان کی صداقت اور صحت پر دلالت کرتی ہے۔ شبہات کے دارد ہونے کے وقت جس کسی کے دل میں شک وریب جڑ پکڑ لیتا ہے اور شہوات کے پیش آنے پر شہوات اسے گناہوں کی طرف موڑ دیتی یا واجبات کی ادائیگی سے روک دیتی ہیں تو یہ چیز اس کے ایمان کی عدم صحت اور عدم صداقت پر دلالت کرتی ہے۔ اس مقام پر لوگ بہت سے درجات میں منقسم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا کچھ لوگوں کے پاس بہت قلیل ایمان اور کچھ لوگ اس سے بہت زیادہ سے بہرہ ور ہیں۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت کی زندگی میں قول ثابت کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا کرے اور ہمیں اپنے دین پر ثبات سے سرفراز کرے۔ ابتلاء اور امتحان نفوس انسانی کے لئے ایک بھٹی کی مانند ہے جو اچھی چیز میں سے گندگی اور میل کچیل کو نکال باہر کرتی کرتی ہے۔
Top