Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جن لوگوں نے خدا کی آیتوں سے اور اسکے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا
آیت نمبر (23) اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس سے بھلائی زائل ہوگئی اور ان کو شر حاصل ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو جھٹلایا ان کے پاس دنیا کے سوا کچھ نہیں اسی لئے انہوں نے شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا کیونکہ ان کے دلوں میں کوئی ایس چیز نہیں جو انہیں ان گناہوں کے انجام سے ڈرائے اس لئے فرمایا :” یہ لوگ میرے رحمت سے ناامید ہوگئے۔ “ یعنی ان کے پاس کوئی ایسا سبب نہ ہوگا جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ ورہوں ورنہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید ہوتی تو اس رحمت کے حصول کے لئے عمل کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بڑے بڑے ممنوعات میں سے ہے اور اس کی دو اقسام ہیں : (1) کفار کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر ان تمام اسباب کو ترک کردینا جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ (2) گناہ گاروں کا اپنے گناہوں اور جرائم کی کثرت کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا جو انہیں وحشت میں مبتلا کرکے ان کے قلوب پر حاوی ہوجاتے ہیں اور یوں ان کے قلوب میں مایوسی جنم لیتی ہے۔ ” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ “ یعنی تکلیف دہ اور دل دوز گویا کہ یہ آیات حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے اپنی قوم کے ساتھ کلام اور ان کی قوم کا آپ کی بات رد کرنے کے درمیان بطور جملہء معترضہ آئی ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top