Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 5
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
مَنْ : جو كَانَ يَرْجُوْا : وہ امید رکھتا ہے لِقَآءَ اللّٰهِ : اللہ سے ملاقات کی فَاِنَّ : تو بیشک اَجَلَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ لَاٰتٍ : ضرور آنے والا وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جو شخص خدا کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو خدا کا (مقرر کیا ہوا) وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
آیت 5 اے اپنے رب کے ساتھ محبت کرنے والے ! اس کے قرب اور اس کی ملاقات کا اشتیاق رکھنے والے ! اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے والے ! اپنے محبوب کی ملاقات کے وقت کے قریب آنے پر خوش ہوجا کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے اور ہر آنے والا وقت قریب ہوتا ہے۔ اپنے محبوب کی ملاقات کے لئے زاد راہ لے کر، امید کو اپنا ساتھی بنا کر اور محبوب کے وصل کی آرزو کرتے ہوئے اس کی طرف رواں دواں ہوجا۔ مگر ہر شخص کو، اس کے دعویٰ کرنے پر عطا نہیں کردیا جاتا اور نہ اس کی ہر تمنا پوری کردی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آوازوں کو سننے والا اور نیتوں کو جاننے والا ہے اس لئے جو کوئی اپنے دعوے اور تمناؤں میں سچا ہے اللہ تعالیٰ اس کی امیدوں کو پورا کردیتا ہے اور جو کوئی اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اس کا دعویٰ اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی محبت کا اہل ہے اور کون اس کا اہل نہیں۔ جس نے اپنے نفس، شیطان اور کافر دشمن کے خلاف جہاد کیا۔ ” تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے جہاد کرتا ہے “ کیونکہ اس جہاد کا فائدہ اور اس کا ثمرہ اسی کی طرف لوٹتا ہے اور اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ اللہ تعالیٰ نے بخل کی بنا پر بعض چیزوں سے روک رکھا ہے۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اوامرونواہی میں، مکلف جدوجہد کا محتاج ہے کیونکہ اس کا نفس طبعاٰ نیکی کرنے میں سستی کرتا ہے، اس کا شیطان اسے نیکی کی راہ سے روکتا ہے اور اس کا کافر دشمن اسے اقامت دین سے منع کرتا ہے ان تمام معارضات کو دور کرنے کے لئے مجاہدے اور سخت کوشش کی ضرورت ہے۔
Top