Tafseer-e-Saadi - Yaseen : 59
وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ
وَامْتَازُوا : اور الگ ہوجاؤ تم الْيَوْمَ : آج اَيُّهَا : اے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرمو (جمع)
اور گنہگارو آج الگ ہوجاؤ
آیت 59 اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی جزا کا ذکر کرنے کے بعد مجرموں کی سزا بیان کی ہے۔ (و) ” اور “ ان کو قیامت کے ورز کہا جائے گا : (امتا زوا الیوم ایھا المجرمون) اے مجرمو ! تم الہ ایمان سے الگ ہوجاؤ۔ یہ حکم اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں جہنم میں داخل کرنے سے قبل برسر عام زجر و توبیخ کرے اور ان سے کہے : (الم اعھد الیکم) یعنی کیا میں نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے تمہیں حکم نہیں دیا تھا اور تمہیں وصیت نہیں کی تھی اور تم سے یہ نہیں کہا تھا : (آیت) ” اے آدم کی اولاد ! شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ “ یعنی اس کی اطاعت نہ کرو، یہ زجر و توبیخ ہے اور اس میں ہر قسم کے کفر و معصیت پر زجر و توبیخ داخل ہے، کیونکہ کفر و معاصی کی تمام اقسام شیطان کی اطاعت اور اس کی عبادت کے زمرے میں آتی ہیں۔ (انہ لکم عدومبین) ” بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ پس میں نے تمہیں اس سے انتہائی حد تک بچنے کی ہدایت کی، تمہیں اس کی اطاعت سے ڈرایا اور وہ تمہیں جس چیز کی دعوت دیتا ہے میں نے تمہیں اس سے خبردار کیا تھا۔ (و) ” اور “ میں نے تمہیں حکم دیا تھا : (ان اعبدونی) کہ میرے اوامر کی تعمیل کرتے اور میری نافرمانی سے بچتے ہوئے میری عبادت کرو (ھذا) یعنی میری عبادت، میری اطاعت اور شیطانی کی نافرمانی کرنا (صراط مستقیم) ” سیدھا راستہ ہے۔ “ پس صراط مستقیم کے علوم و اعمال انھی مذکورہ و امور کی طرف راجع ہیں۔ تم نے میرے عہد کی حفاظت کی نہ میری وصیت پر عمل کیا، بلکہ تم نے اپنے دشمن یعنی شیطان سے دوستی رکھی، لہٰذا (اضل منکم جبلاً کثیراً ) اس نے تم میں سے بہت زیادہ مخلوق کو گمراہ کیا (افلم تکونوا تعقلون) یعنی کیا تم میں عقل نہیں جو تمہیں تمہارے رب اور حقیقی سرپرست کے ساتھ موالات رکھنے کا حکم دے اور تمہیں تمہارے بدترین دشمن کو اپنا دوست اور سرپرست بنانے سے روکے۔ اگر تمہاری عقل صحیح ہوتی تو تم ہرگز ایسا نہ کرتے۔ اب جبکہ تم نے شیطا نیک اطاعت کی، رحمٰن کے ساتھ عداوت کی، اس کے ساتھ ملاقات کو جھٹلایا، قیامت یعنی دار جزا میں آوارد ہوئے اور تم عذاب کے مستحق ٹھہرے تو (ھذہ جھنم التی کنتم توعدون) ” یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے “ اور تم جھٹلایا کرتے تھے۔ اب اس کو تم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھو، یہاں دل دہل جائیں گے، آنکھیں پھرجائیں گی اور بہت بڑی گھبراہٹ کا وقت ہوگا۔ پھر اس کی تکمیل یوں ہوگی کہ انہیں جہنم میں ڈال دیئے جانے کا حکم ہوگا اور ان سے کہا جائے گا : (اصلوھا الیوم بما کنتم تکفرون) ” اپنے کفر کا بدلہ پانے کے لئے جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ “ جہاں آگ تمہیں جلائے گی، آگ کی حرارت تمہیں گھیر لے گی، آیات الٰہی کے انکار اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں تک تکذیب کے سبب سے آگ تمہارے جسم کے ہر حصے کو جلائے گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدبختی کے اس گھر میں ان کے بدترین احوال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے۔ “ یعنی ہم ان کو گونگا بنادیں گے، پس وہ بول نہ سکیں گے، کفر اور تکذیب پر مبنی اپنے اعمال کا انکار کرنے پر قادر نہیں ہوں گے (آیت) ” اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔ “ یعنی ان کے اعضا ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے اور وہ ہستی انہیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو قوت گویائی عطا کی ہے (آیت) ” یعنی ہم اگر چاہیں تو ان کی بینائ سلب کرلیں جس طرح ہم نے ان کی گویائی سلب کرلی (فاستبقوا الصراط) یعنی سیدھے راستے کی طرف سبقت کرو، کیونکہ جنت تک پہنچنے کا صرف یہی راستہ ہے (فانی یبصرون) ” تو وہ کہاں سے دیکھ سکیں گے “ کیونکہ ان کی آنکھوں کی بینائی سلب کرلی گئی ہے۔ (ولو نشآء لمسخنھم علی مکانتھ) ” اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں۔ “ یعنی ہم ان کی حرکت سلب کرلیں (فما استطاعوا مضیاً ) ” تو وہ چل پھر نہ سکیں “ یعنی آگ کی جانب (ولا یرجعون) اور نہ آگ سے دور رہنے کے لئے پیچھے لوٹ سکیں۔ معنی یہ ہے کہ ان کفار کے لئے عذاب ثابت ہوگیا لہٰذا ان کو ضرور عذاب دیا جائے گا اور اس مقام پر جہنم کے سوا کچھ نہیں جو سامنے ہے اور اس پر بچھے ہوئے پل کو عبور کئے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں اور اہل ایمان کے سوا اس پل کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی روشنی میں پل کو عبور کریں گے۔ رہے یہ کفار تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لئے نجات کا کوئی وعدہ نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بینائی کو سلب کرلے اور ان کی حرکت کو باقی رکھے تب اگر یہ راستے یک طرف بڑھیں تو اس تک پہنچ نہیں پائیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی حرکت کو بھی سلب کرلے تب یہ آگے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے لوٹ سکیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کفار پل صراط کو عبور کرسکیں گے نہ انہیں جہنم سے نجات حاصل ہوگی۔
Top