Tafseer-e-Saadi - Yaseen : 70
لِّیُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ
لِّيُنْذِرَ : تاکہ ( آپ) ڈرائین مَنْ : جو كَانَ : ہو حَيًّا : زندہ وَّيَحِقَّ : اور ثابت ہوجائے الْقَوْلُ : بات (حجت) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : جمع کافر
تاکہ اس شخص کو جو زندہ ہو ہدایت کا راستہ دکھائے اور کافروں پر بات پوری ہوجائے
آیت 70 مشرکین نبی مصطفیٰ ﷺ پر شاعر ہونے کا بہتان لگایا کرتے تھے نیز یہ کہ جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں و شاعری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محمد ﷺ کو شاعری سے منزہ قرار یدتے ہوئے فرمایا (آیت) ” یعنی آپ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ آپ شاعری کریں یعنی آپ کا شاعر ہونا جنس محال میں سے ہے آپ تو ہدایت یافتہ ہیں جبکہ شعرا گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ لوگ ہی ان شعرا کی پیروی کرتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے تمام شبہات کو دور کردیا جن کا یہ گمراہ لوگ سہارا لیا کرتے ہیں، چناچہ اس شب ہے کو بھی ختم کردیا کہ آپ لکھ سکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں اور آگاہ فرماتا ہے اس نے آپ کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری آپ کے شایان شان ہے (ان ھو الا ذکر و قرآن مبین) یعنی یہ چیز جو محمد رسول ﷺ لے کر آئے ہیں ” ذکر “ ہے جس سے عقل مند لوگ تمام دینی مطالب میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں، وہ تمام دینی مطالب پر کامل ترین طریقے سے مشتمل ہے اور وہ عقلوں کو اس چیز کی یاد دہانی کرواتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اچھے کام کر کے حکم اور برے کام سے ممانعت کے طور پر انسانی فطرت میں ودیعت کردیا ہے۔ (و قرآن مبین) ” اور واضح قرآن ے “ یعنی جن امور کی تبیین مطلوب ہے ان سب کو بیان کرتا ہے۔ یہاں سا لئے معمول کو حذف کردیا تاکہ وہ اس حقیت پر دلالت کرے کہ وہ پورے حق کو اور باطل کے بظلان کو اجمالی اور تفصیلی کے ذریعے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رسول ﷺ پر اسی طرح نازل فرمایا۔ (لینذر من کان حیا) ’ دتا کہ اس شخص کو، جو زندہ ہو، متنبہ کرے۔ “ یعنی جو شخص دل زندہ رکھتا ہے وہی اس قرآن کے لائق ہے، اسی شخص کے علم و عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن اس کے دل کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو نہایت عمدہ اور زرخیز زمین کے لئے بارش کی حیثیت ہوتی ہے (آیت) ” اور کافروں پر بات پوری ہوجائے “ کیونکہ ان پر حجت الٰہی قائم ہوگئی اور ان کی حجت منقطع ہوگئی اور ان کے پاس ایک ادنیٰ سا عذر اور شبہ بای نہیں رہا جس کا وہ سہارا لے سکیں۔
Top