Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 21
وَ كَیْفَ تَاْخُذُوْنَهٗ وَ قَدْ اَفْضٰى بَعْضُكُمْ اِلٰى بَعْضٍ وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا
وَكَيْفَ : اور کیسے تَاْخُذُوْنَهٗ : تم اسے لوگے وَقَدْ : اور البتہ اَفْضٰى : پہنچ چکا بَعْضُكُمْ : تم میں ایک اِلٰى بَعْضٍ : دوسرے تک وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا مِنْكُمْ : تم سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور تم دیا ہوا مال کیو نکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہیں ؟
آیت 21 زمانہ جاہلیت میں اگر کوئی شخص مرجاتا اور اپنے پیچھے بیوی چھوڑتا تو مرنے والے کا کوئی قریبی مثلاً بھائی یا چچا زاد بھائی وغیرہ سمجھتا تھا کہ وہ اس عورت کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ چناچہ عورت خواہ پسند کرتی یا ناپسند کرتی وہ اس عورت پر قبضہ کرلیتا تھا اور اسے کسی اور کے ساتھ نکاح نہ کرنے دیتا۔ اگر وہ چاہتا تو وہ اس کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق حق مہر پر اس سے نکاح کرلیتا اور اگر وہ اسے پسند نہ کرتا تو اسے نکاح کرنے سے روک دیتا اور صرف اسی کے ساتھ اس کا نکاح کرتا جسے وہ خود منتخب کرتا اور بسا اوقات وہ اس کا نکاح اس وقت تک نہ ہونے دیتا جب تک وہ مرنے والے شوہر کی میراث یا مہر میں سے اسے کچھ نہ دے دیتی۔ نیز وہ اپنی ناپسندیدہ بیوی کو بھی روک رکھتا اور دوسری جگہ نکاح نہ کرنے دیتا تاکہ وہ اپنا حق مہر اور وہ سامان ساتھ نہ لے جائے جو اس نے اسے عطا کیا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور سے اہل ایمان کو منع کیا ہے۔ سوائے مندرجہ ذیل دو حالتوں کے۔ 1۔ جب عورت برضا ورغبت اپنے سابقہ شوہر کے کسی قریبی رشتہ دار کے ساتھ نکاح کرلے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (کرھا) کا مفہوم مخالف ہے۔ 2۔ جب واضح بدکاری مثلاً زنا وغیرہ کا ارتکاب کرے اور فحش گوئی کے ذریعے سے اپنے شوہر کو اذیت دے، تو اس صورت میں خاون کا اس کو اس کے کر تتوں کی سزا کے طور پر، دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا جائز ہے، تاکہ وہ خاوند کا اس کو اس کے کر تتوں کی سزا کے طور پر، دوسری جگہ شادی کرنے سے روکنا جائز ہے، تاکہ وہ خاوند سے وصول کردہ مال واپس کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ (یہ گویا خلع کی صورت میں جس میں خاوند حق مہر وغیرہ واپس لے سکتا ہے) لیکن شرط یہی ہے کہ یہ روکنا عدل و انصاف کے مطابق ہو۔ (وعا شروھن بالمعروف) ” اور ان سے اچھے طریقے سے گزر ان کرو “ یہ حکم قولی اور فعلی دونوں قسم کی معاشرت (گزران) کو شامل ہے، پس شوہر پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے طریقے سے رہے، اسے کوئی اذیت نہ دے اس کے ساتھ بھلائی اور حسن معاملہ سے پیش آئے۔ اس میں نان و نفقہ اور لباس وغیرہ سب شامل ہیں۔ پس زمان و مکان کے احوال کے مطابق شوہر کا بیوی سے معروف طریقے سے پیش آنا فرض ہے اور اسی طرح بیوی پر بھی فرض ہے۔ یہ چیز احوال کے تفاوت کے مطابق متفاوت ہوتی ہے۔ (فان کرھتموھن فعسی ان تکرھواشیاء ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً ) ” اگر تم انہیں ناپسند کرو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے “ یعنی اے شوہر و تم اپنی بیویوں کو ناپسند کرنے کے باوجود اپنے پاس رکھو کیونکہ ایسا کرنے میں خیر کثیر ہے۔ مثلاً اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی وصیت کو قبول کرنا ہے، جس کے اندر دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔ 3۔ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ عدم محبت کے باوجود اپنے آپ کو اس کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا، اس میں مجاہدہ نفس بھی ہے اور خلق جمیل سے آراستہ ہونا بھی۔ 4۔ بسا اوقات ناپسندیدگی زائل ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ محبت لے لیتی ہے جیسا کہ فی الواقع ہوتا ہے۔ 5۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں کو صالح اولاد عطا کردیتا ہے جو دنیا و آخرت میں اپنے والدین کو نفع دیتی ہے۔ بیوی کو اپنے ساتھ رکھنے میں ان تمام امور کے امکانات موجود ہیں۔ البتہ جب بیوی سے مفارقت ناگزیر ہوجائے اور اس کو ساتھ رکھنے کی کوئی صورت بنتی نظر نہ آئے، تب اسے روک رکھنا لازم نہیں (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج) یعنی جب تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو یعنی ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہو تو اس میں کوئی گناہ اور حرج کی بات نہیں (واتیتم احدھن) البتہ اگر تم نے جدا ہونے والی بیوی کو یا اس کو جس سے نکاح کیا ہے (قنطارا) مال کثیر عطا کر رکھا ہو (فلاتاخذوا منہ شیاً ) تو اس سے کوئی چیز واپس نہ لو بلکہ اس میں اور زیادتی کرو اور ان کے ساتھ ٹال مٹول نہ کرو۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالتک رتی ہے کہ کثرت مہر حرام نہیں۔ مگر بایں ہمہ تخفیف مہر میں رسول اللہ ﷺ کی اقتدار افضل اور زیادہ لائق اعتنا ہے اور استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک معاملے کی خبر دی ہے جو ان سے واقع ہوا، مگر اس پر نکیر نہیں فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل حرام نہیں ہے، مگر کبھی زیادہ حق مہر مقرر کرنے سے روکا بھی گیا ہے جبکہ اس میں دینی مفاسد ہوں اور اس کے مقابلے میں کوئی مصلحت نہ ہو۔ پھر فرمایا : (اتاخذونہ بھتاناً واثماً مبیناً ) ” کیا تم اسے ناحق اور کھلا گنا ہوتے ہوئے بھی لے لو گے “ کیونکہ ایسا کرنا جائز نہیں خواہ تم بیوی کو عطا کی ہوئی چیز واپس لینے کے لئے کوئی بھی حیلہ کرلو، بہرحال یہ واضح گناہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس کی حکمت بیان فرمائی ہے (وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقاً غلیظاً ) ” تم اسے کیسے لے لو گے ؟ حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے “ اور اس کی توضیح یوں ہے کہ بیوی شوہر کے لئے نکاح سے قبل حرام ہوتی ہے اس نے بیوی کے طور پر حلال ہونے کے لئے صرف حق مہر کے عوض رضا مندی کا اظہار کیا تھا جو وہ بیوی کو ادا کرے گا۔ جب اس نے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت صحیحہ میں صحبت اور مباشرت کی جو اس سے قبل حرام تھی اور وہ بیوی اس کے لئے اس عوض کے بغیر رضاء نہ تھی، پس شوہر نے مہر کا معوض پوری طرح وصول کرلیا، تو اس پر عوض (مہر) کی ادائیگی واجب ہوگئی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شوہر معوض (یعنی صحبت و مباشرت) تو پورا پورا وصول کرے پھر اس کے بعد حق مہر ادا نہ کرے۔ یہ بہت بڑا ظلم اور جور ہے۔ (اس لئے ایسا نہ کرو) اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عقد میں بیوی کے حقوق کے قیام کے لئے شوہروں سے پکا عہد لیا ہے۔ (اس کا بھی تقاضا عدل و کرم ہے نہ کہ ظلم و جبر) پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
Top