Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 22
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّشَاقِقِ : مخالفت کرے الرَّسُوْلَ : رسول مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جب تَبَيَّنَ : ظاہر ہوچکی لَهُ : اس کے لیے الْهُدٰى : ہدایت وَ : اور يَتَّبِعْ : چلے غَيْرَ : خلاف سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کا راستہ نُوَلِّهٖ : ہم حوالہ کردیں گے مَا تَوَلّٰى : جو اس نے اختیار کیا وَنُصْلِهٖ : اور ہم اسے داخل کرینگے جَهَنَّمَ : جہنم وَسَآءَتْ : بری جگہ مَصِيْرًا : پہنچے (پلٹنے) کی جگہ
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
آیت 22 یعنی ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ اور دادا نکاح کرچکے ہوں (ان ہکان فاحشہ) ” یہ بہت قبیح کام ہے “ اور اس کی قباحت بہت بڑھی ہوئی ہے (ومقتا) تمہارے لئے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی ناراضی کا باعث ہے۔ بلکہ اس کے سبب سے بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے ناراض ہوجاتا ہے، حالانکہ بیٹے کو باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ہے۔ (وسآء سبیلاً ) (اس راستے پر) چلنے والے کے لئے یہ برا راستہ ہے۔ کیونکہ یہ جاہلیت کی قبیح رسوم و عادات ہیں جن سے (معاشرے کو) پاک کرنے کے لئے اسلام آیا ہے۔
Top