Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
آیت 44 اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنہیں کتاب عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے کہ وہ ان کی وجہ سے دھوکے میں نہپڑیں اور ان کا ساتھی بننے سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت آگاہ فرمایا کہ وہ اپنے بارے (یشترون الضلۃ) گمراہی خریدتے ہیں یعنی گمراہی سے بہت زیادہ محبت کترے ہیں اور اسے ترجیح دیتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی محبوب چیز کی طلب میں مال کثیر خرچ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پس یہ لوگ ہدایت پر گمراہی کو، ایمان پر کفر کو اور سعادت پر شقاوت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ (ویریدون ان تضلوا السبیل) ” اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کرلو۔ “ پس وہ تمہیں گماہ کرنے کے بعد حد خواہش مند ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کا ولی اور مددگار ہے اس لئے ان کے سامنے ان کفار کی گمراہی اور ان کی دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اس لئے فرمایا : (وکفی باللہ ولیا ) ” اللہ ہی کافی کار ساز ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ تمام امور میں اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام احوال میں ان کی سرپرستی فرماتا ہے اور ان کے لئے سعادت اور فلاح کی راہوں کو آسان کرتا ہے۔ (وکفی باللہ نصیراً ) ” اور اللہ ہی کافی مددگار ہے۔ “ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف مدد عطا کرتا ہے اور ان کے سامنے واضح کرتا ہے کہ انہیں کن لوگوں سے بچنا چاہیے وہ ان کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ولایت اور سرپرستی میں خیر کا حصول اور اس کی نفرت میں شرکا زوال ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی گمراہی، عناد اور ان کے حق پر باطل کو ترجیح دینے کی کیفیت بیان فرمائی ہے۔ (من الذین ھادوا) ” اور جو یہدی ہوئے، اس جگہ ان سے مراد یہودیوں کے گمراہ علماء ہیں۔ (یحرفون الکلم عن مواضعہ) ” ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔ “ یعنی وہ کلمات الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ تحریف یا تو لفظ میں ہوتی تھی یا معنی میں یا دونوں میں۔ یہ ان کی تحریف تھی کہ آنے والے نبی کی وہ صفات جو ان کی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی پر منطبق اور صادق نہ آتی تھیں۔ (یہودی کہتے تھے) کہ یہ صفات رسول اللہ ﷺ کی نہیں کسی اور کی بیان ہوئی ہیں ان صفات سے مراد رسول اللہ ﷺ نہیں ہیں وہ ان صفات کو چھپاتے تھے۔ پس علم کے بارے میں یہ ان کا بدترین حال ہے۔ انہوں نے حقائق کو بدل ڈالا حق کو باطل بنادیا اور پھر انہوں نے اس کی وجہ سے اس حق کا انکار کردیا۔ رہا عمل اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کا حال تو کہا کرتے تھے : (سمعنا وعصینا) ” ہم نے سن لیا اور نہیں مانا۔ “ یعنی ہم نے تیری بات سنی اور تیرے حکم کی نافرمانی کی۔ یہ کفر وعناد اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل بھاگنے کی انتہا ہے۔ اسی طرح وہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی سواء اوبی، اور بدترین خطابات کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے اور ہا کرتے تھے : (واسمع غیر مسمع) ” سنیے نہ سنو ائے جاؤ۔ “ اور ان الفاظ سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری بات سن، تجھے وہ بات نہ سنوائی جائے جو تجھے پسند ہے بلکہ وہ بات سنوائی جائے جو تجھے ناپسند ہے (وراعنا) اس رعونت سے ان کی مراد تھی قبیح عیب۔ وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ لفظ میں ان معنوں کا احتمال ہے جو ان کے معین مراد کے علاوہ ہیں، اس لئے یہ اللہ او اس کے رسول ﷺ کے بارے میں رائج ہوجائے گا۔ چناچہ وہ اس لفظ کو، جس کا وہ اپنی زبانوں کو مروڑ کر تلفظ کرتے تھے، اسی لئے فرمایا : (لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین) ” زبانوں کو مروڑ کر اور دین میں عیب لگانے کو ‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز کی طرف ان کی راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا : (ولو انھم قالواسمعنا واطعنا واسمع وانظرنا لکان خیراً لھم واقوم) ” اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرماں برداری کی اور آپ سنئے اور ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا “ چونکہ یہ کلام رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہونے کے بارے میں حسن خطاب، لائق ادب، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی تعمیل کو متضمن ہے نیز یہ کلام ان کے طلب علم، ان کے سوال کو سننے اور ان کے معاملے کو درخور اعتنا سمجھنے کے بارے میں حسن ملاطفت کا حامل ہے۔ اس لئے یہ وہ راستہ ہے جس پر انہیں گامزن ہونا چاہیے، مگر چونکہ ان کی طبائع پاکیزگی سے محروم ہیں اس لئے انہوں نے اس سے اعراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر وعناد کے باعث انہیں دھتکار دیا، اس لئے فرمایا : (ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلاً ) ” مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر لعنت کی، پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت تھوڑے “
Top