Siraj-ul-Bayan - Al-Kahf : 8
وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ
وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَجٰعِلُوْنَ : البتہ کرنے والے مَا عَلَيْهَا : جو اس پر صَعِيْدًا : صاف میدان جُرُزًا : بنجر (چٹیل)
اور جو کچھ زمین پر ہے ہم اسے چھانٹ کر میدان کردیں گے (ف 1) ۔
سورة کہف کی دس آیتیں : (ف 1) ابتدا کی ان دس آیتوں میں جو معارف بیان فرمائے ہیں ان کو سمجھ لینے کے بعد گمراہی کا کوئی احتمال نہیں رہتا ، اور قلب و دماغ انواروصداقت سے مستنیر ہوجاتے ہیں ذلیل میں یہ معارف درج ہیں ۔ 1۔ قرآن حکیم اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں مطالب واضح اور صاف ہیں ۔ 2۔ یہ ہماری تمام ضروریات دینی کی کفیل ہے ، اس صحیفہ قیم کے بعد مزید تجدید وبعثت کی ضرورت نہیں ۔ 3۔ توحید کی راہ استقامت اور سلامت روی کی راہ ہے ، مسلمان کا نصب العین ہمیشہ یہی رہے گا کہ ایک خدا کے سامنے جھکے ، 4۔ عقیدہ شرک کی تمام صورتیں اور شکلیں غیر علمی اور غیر یقینی ہیں اور اللہ کی تقدیس پر اتہام وافترا ہے ۔ 5۔ جناب رسالت پناہ امت کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ، ہمارے لئے ان کے دل میں بیحد کرب وبے چینی تھی ، (آیت) ” فلعلک باخع نفسک “۔ میں اسی جانب اشارہ ہے اس لئے آپ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مکمل اور تشفی بخش ہے ۔ 6۔ دنیا کی آرائش وزینت ناپائدار اور فانی ہے مقصود یہ ہے کہ ہم دنیا میں رہ کر آیندہ زندگی کے لئے تیاری کریں ۔ 7۔ اللہ کے نیک بندے ابتلاء کے وقت مایوس نہیں ہوتے ، اور اللہ سے ہدایت و راہنمائی کی توفیق چاہتے ہیں ، کیا یہ حقائق ایسے نہیں کہ انسانیت کو فروغ دیں ، اور مومن کو ہر نوع کی گمراہیوں سے بچا لیں ؟ حل لغات : باخع : جان کھونے والا ۔ جرزا : زمین بےگیاہ ، بنجر ، غیر آباد ، ناقابل زراعت ۔ الرقیم : وہ جگہ ہے ، جسے بائبل میں ’ راقیم ‘ کہا گیا ہے ، وہ تختی جس پر اصحاب کہف کا قصہ اور ان کے نام لکھے ہوئے تھے ۔
Top