Siraj-ul-Bayan - At-Talaaq : 11
رَّسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ قَدْ اَحْسَنَ اللّٰهُ لَهٗ رِزْقًا
رَّسُوْلًا : (بھیجا) ایک رسول کو يَّتْلُوْا : وہ پڑھتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات مُبَيِّنٰتٍ : واضح لِّيُخْرِجَ الَّذِيْنَ : تاکہ نکال دے ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے اچھے مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيَعْمَلْ : اور عمل کرے صَالِحًا : اچھے يُّدْخِلْهُ : داخل کرے گا اس کو جَنّٰتٍ : باغوں میں تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : جن کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ : ہمیشہ رہنے والے ہیں ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ہمیشہ قَدْ اَحْسَنَ : تحقیق اچھا دیا اللّٰهُ : اللہ نے لَهٗ رِزْقًا : اس کو رزق
وہ (خدا) کا بھیجا ہوا ہے ۔ جو تمہیں اللہ کی کھلی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ انہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ۔ تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالے ۔ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک کام کرے وہ اسے باغوں میں داخل کریگا ۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے بیشک اللہ نے اسے اچھی روزی دی
زندہ قرآن 1: قرآن حکیم نے متعدد مقامات میں منصب نبوت کی تصریح کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے ۔ کہ پیغمبر کی اجازت عقیدت مندوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کی نجات ہے ۔ مگر ایک برخود غلط گروہ کا یہ عقیدہ ہے ۔ کہ قرآن کے سوا اور کوئی شخصیت مطاع نہیں ہے ۔ اور رسول ﷺ کی حیثیت محض یہ ہے ۔ کہ وہ پیغام کو ہم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے ۔ کہ ہم اسکو لغت اور ادب کی روشنی میں سمجھیں ۔ رسول ﷺ یا تو کچھ تفصیلات بیان ہی نہیں کرتا ۔ اور یا اس کی بیان کردہ تفصیلات ہمارے لئے مستند نہیں ہیں ۔ اس آیت نے اس مغالطہ کو دور کردیا ہے ۔ اور بالکل واضح کردیا ہے ۔ کہ وہ ذکر جس کی پیروی کی تم کو تلقین کی گئی ہے ۔ اس کو صرف قرآن کے اوراق میں نہ ڈھونڈو ۔ کہ اس طرح تم حق وصداقت کو تلاش کرنے میں قطعاً ناکام رہو گے ۔ اس کو رسول کی زندگی کے صفحات میں ڈھونڈو ۔ کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ۔ کہ آیات بینات کو تفصیل کے ساتھ پڑھ کر سنائے ۔ اور اس طرح انسانیت کو فہم و استدلال کے تاریک جنگلوں سے نکال کر ایمان اور تقویٰ کی روشن وادیوں میں پہنچادے ترکیب نحومی کے لحاظ سے یہاں رسولاً ذکر ان کا بدل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اطاعت اور وہ اطاعت اور فرمانبرداری جو قرآن میں مذکور ہے ۔ اس کی تکمیل اسوقت تک نہیں ہوسکتی ۔ جب تک اس کو رسالت کی روشنی میں نہ دیکھاجائے ۔ کیونکہ رسول ﷺ ہی قرآن کا محطب اول سے ۔ اس کا دل مہیط وحی ہے ۔ اس کے اعمال پر اس کو خدا کی جانب سے تبیہ ہوتا ہے ۔ اس کی شان میں آیا ہے ۔ وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ یعنی وہ جو کچھ نہیں کہتا ۔ اس حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ قرآن کی تفصیلات حجت اور سندد ہوں ۔ اور وہ فاسق وفاجر نسان و چند کتابیں پڑھ لیتا ہے ۔ قرآن کا معتبر معارج بن جائے ۔ وہ جس کا استاد جبرائیل ہو ۔ علمہ شدیدالقویٰ ۔ وہ جس کا سینہ حقائق کے فہم کے لئے کشادہ اور وسیع ہو الم نشرح لک صدراک وہ تو قرآن کو صحیح نہ سمھے ۔ اور آج کل کے روشنی والے درست اور صحیح سمجھیں ۔ جو نہ دولت علم سے بہرہ مند ہیں ۔ اور نہ صلاح وتقویٰ سے آشنا ۔ ع برین عقل وہمت بباید گریست ۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ۔ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس قرآن کے جس کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اور کوئی بات حجت نہیں ۔ وہ کس درجہ گستاخی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ کیا ان کے نزدیک منصب نبوت کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ ایک نوع کی سفارت ہے ۔ جس کو سیرت اخلاق اور اعمال کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ۔ کیا رسول ﷺ کی یہی حیثیت ہے کہ وہ قرآن کو بلا کم وکاست پہنچا دے ۔ چاہے معاذ اللہ خود نہ سمجھے اس پر عمل نہ کرے ۔ اور دوسروں کو نہ سمجھائے اگر واقعہ اس کے برعکس ہے ۔ تو منکرین سنت بتائیں ۔ کہ رسول کا فہم اس کا عمل اور اس کی سیرت کہاں منضبط ہے ؟ کن کتابوں میں موجود ہے ! آخر قرآن فہمی کی ضرورت تو ان کو ان حاملین قرآن سے کہیں زیادہ ان کو محسوس ہوتی ہوگی ۔ وہ قرآن فہمی ہے کہاں ؟
Top