Siraj-ul-Bayan - Al-A'raaf : 173
اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ١ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ
اَوْ : یا تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں (صرف) اَشْرَكَ : شرک کیا اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَكُنَّا : اور تھے ہم ذُرِّيَّةً : اولاد مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اَفَتُهْلِكُنَا : سو کیا تو ہمیں ہلاک کرتا ہے بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا الْمُبْطِلُوْنَ : اہل باطل (غلط کار)
یا کہو کہ شرک تو ہمارے باپ دادوں نے ہم سے پہلے نکالا ہے ، اور ہم ان کے بعد کی اولاد ہیں ، تو کیا تو جھوٹوں کے کام پرہ میں ہلاک کرتا ہے ؟ (ف 1) ۔
عہد فطرت : (ف 1) ان آیات میں بتایا کہ عہد ومیثاق کا تعلق فطرت وتکوین سے ہے ، انبیاء محض اس لئے مبعوث ہوتے ہیں ، تاکہ وہ اس عہد کو تاکید و توضیح کے ساتھ ان کے سامنے دوبارہ پیش کردیں ، ورنہ انسانوں کے ضمیر میں اور ان کی گھٹی میں توحید اور اعتراف حق ودیعت ہے ، یعنی اللہ نے جب سے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی رگ رگ اور نس نس سے اعتراف و ایمان کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، ناممکن ہے ، کہ انسان اللہ سے بےنیاز ہو سکے ، اور اس کی احتیاج کو برملا محسوس نہ کرے ۔ عہد الست سے یہی مقصود ہے ، (آیت) ” قالوا بلی “۔ میں قول زبان حال سے تعبیر ہے ، جس طرح کہا جاتا ہے ، اذا متلاء الحوض قال قطنی ۔ یعنی انسانی بناوٹ انسانی اعضاء وجوارح میں قدرت الہی کا مظاہرہ ، بند بند اور جوڑ جوڑ میں حکمت و دانائی کا ظہور ، یہ اس بات کا بولتا ہوا ثبوت ہے کہ غالب ودانا خدا کی یہ سب صنعت گری ہے ۔ حل لغات : نباء : مشہور بات ، نبوہ سے مشتق ہے ، جس کے معنی بلندی کے ہیں ، اور جو چیز بلند ہوتی ہے مشہور ہوتی ہے ۔
Top