Tadabbur-e-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
جزا و سزا کے دن کا مالک
لفظ دین کے معانی: دین کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ 1۔ مذہب و شریعت کے معنی کے لیے مثلاً ’اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ‘ 83۔ آل عمران (کیا خدا کے اتارے ہوئے مذہب کے سوا وہ کسی اور مذہب کے طالب ہیں)۔ 2۔ قانون ملکی کے لیے مثلاً ’مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ‘ 76۔ یوسف (اس کو بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک سکے)۔ 3۔ اطاعت کے معنی کے لیے مثلاً ’وَلَہ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا‘ 52۔ نحل (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے)۔ 4۔ جزا کے معنی کے لیے مثلاً ’اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ‘ 6-5 ذاریات (جس چیز کی تمہیں دھمکی سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے اور جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی)۔ جزا سے مراد اس کے دونوں پہلو ہیں۔ نیک اعمال کا صلہ بھی اور برے کاموں کی سزا بھی۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمہ میں جزا کے ساتھ سزا کا لفظ بھی بڑھا دیا ہے۔ جزا و سزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اور سارا اختیار اسی کو حاصل ہو گا۔ اس کے آگے سب عاجز و سرفگندہ ہوں گے۔ کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے۔ سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سزا دے گا، جس کو چاہے گا انعام دے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے ’اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذٍ لِّلّٰہِ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ‘ 56۔ حج (اس دن سارا اختیار اللہ ہی کو ہوگا، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا)۔ ’لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ‘ 16۔ غافر (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟ صرف خدائے واحد و قہار کی)۔ اس آیت کے تین لفظوں میں جو بات پوشیدہ ہے وہ اگر پھیلا دی جائے تو پوری بات یوں ہو گی کہ ایک دن جزا اور سزا کا آنے والا ہے۔ اس دن سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہو گا اور اس کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہو گی۔ لیکن کلام کے دعائیہ اسلوب میں یہ بات اس طرح لپیٹ دی گئی ہے کہ دعا کرنے والا ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت سے ان سب باتوں کا اعتراف کر جاتا ہے۔ گویا خدا کی ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل و انصاف کے ان آثار و دلائل کے بعد جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ایک ہٹ دھرم کے سوا کون ہے، جو اس حقیقت کے کسی جزو کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر سکے؟
Top