Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 16
وَ اِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗۤا اِلَى الْكَهْفِ یَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یُهَیِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
وَاِذِ : اور جب اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ : تم نے ان سے کنارہ کرلیا وَ : اور مَا يَعْبُدُوْنَ : جو وہ پوجتے ہیں اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا فَاْوٗٓا : تو پناہ لو اِلَى : طرف میں الْكَهْفِ : غار يَنْشُرْ لَكُمْ : پھیلادے گا تمہیں رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت وَيُهَيِّئْ : مہیا کرے گا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے اَمْرِكُمْ : تمہارے کام مِّرْفَقًا : سہولت
اور اب کہ تم ان کو اور ان کے معبودوں کو، جن کو وہ خدا کے سوا پوجتے ہیں، چھوڑ کر الگ ہوگئے ہو تو غار میں پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنا دامن رحمت پھیلائے گا اور تمہارے اس مرحلہ میں تمہاری مایحتاج مہیا فرمائے گا
وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقًا مرفق اس چیز کو کہتے ہیں جو آدمی کی ضرورت اور منفعت کی ہو وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِنْ أَمْرِكُمْ مِرفَقًا، یعنی اس مرحلہ میں جس چیز کے تم محتاج ہوگے اللہ تعالیٰ وہ تمہارے لیے مہیا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی بشارت : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے بشارت ہے اور قرینہ دلیل ہے کہ یہاں کلام کا اتنا حصہ حذف ہے جو سیاق کلام سے خود واضح ہے یعنی بالآخر ان کے اور ان کی قوم کے درمیان کش مکش اتنی بڑھ گئی کہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ لوگ ان کو، جیسا کہ آیت 20 سے واضح ہوتا ہے، سنگسار کردیں گے۔ اس وقت ان لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک خاص غار میں جو پہلے سے انہوں نے منتخب کرلیا تھا، پناہ گزیں ہوجائیں گے۔ اس مرحلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی وحی کے ذریعہ سے بشارت دی کہ اب جب کہ تم نے اللہ کی خاطر اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اپنے منتخب کردہ غار میں پناہ گیر ہوجاؤ۔ تمہار رب تمہارے لیے اپنے فضل و رحمت کا دامن پھیلائے اور تمہاری تمام ضروریات کا سامان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بس یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمت کرکے اس کی راہ پر چلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو آگے کی منزل کے لیے زاد و راحلہ وہ خود فراہم کرتا ہے۔ من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب۔ ایک شبہ کا ازالہ : ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوا پیدا ہو کہ کیا یہ لوگ صاحب وحی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی کے ذریعہ سے بشارت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وحی اسی قسم کی وحی تھی جس کے ذریعہ سے حضرت موسیٰ کی والدہ کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ بچہ کو ایک صندوق میں رکھ کے دریا میں ڈال دیں۔ ترک دنیا کے حق میں ارباب تصوف کا غلط استدلال : اس واقعہ سے بعض صوفی حضرات نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کی زندگی کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ بات ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اس غار میں پناہ اس وقت لی ہے جب وہ اپنے ماحول کی اصلاح کے لیے جان بازی کھیل کر اپنی قوم کے ہاتھوں سنگسار کردیے جانے کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہیں۔ مرحلہ بعینہ وہی مرحلہ ہے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کو پیش آیا اور آپ کو غار ثور میں پناہ لینی پڑی۔ ان لوگوں نے یہ غار نشینی رہبانیت کے لیے نہیں اختیار کی تھی بلکہ عدائے حق کے شر سے اپنی جانیں بچانے کے لیے اختیار کی تھی۔ مفسرین کی ایک غلط فہمی : عام طور پر ہمارے مفسرین نے اس آیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے مفہوم میں نہیں لیا ہے بلکہ اس کو خود اصحاب الکہف کا قول سمجھا ہے کہ انہوں نے آپس میں اپنے ساتھیوں سے یہ بات کہی، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ آیت میں جس قطعیت کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت کا وعدہ ہے، کوئی متواضع بندہ اس قطعیت کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ کوئی متواضع بندہ اس طرح کی بات کہے گا تو امید و رجا اور دعا ہی کے الفاظ میں کہے گا۔ چناچہ آیت 10 میں ان لوگوں کی دعا کا حوالہ بھی ہے۔
Top