Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ
قَيِّمًا : ٹھیک سیدھی لِّيُنْذِرَ : تاکہ ڈر سنائے بَاْسًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت مِّنْ لَّدُنْهُ : اس کی طرف سے وَيُبَشِّرَ : اور خوشخبری دے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں الَّذِيْنَ : وہ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لیے اَجْرًا حَسَنًا : اچھا اجر
بالکل ہموار اور استوار تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے اور ایمان لانے والوں کو، جو نیک اعمال کر رہے ہیں، اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ ان کے لیے بہت اچھا اجر ہے
قرآن کا مقصد: لِيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِنْ لَدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ : یہ اس کتاب کے نازل کرنے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ انکار کرنے والوں کے لیے انذار و ایمان لانے والوں کے لیے بشارت ہے۔ پہلے ٹکڑے میں " للکافرین " یا " للمکذبین " محذوف ہے۔ اس لیے کہ آگے والے ٹکڑے میں " مومنین " موجود ہے جو تقابل کے اصول پر اس محذوف کو خود واضح کررہا ہے۔ فعل " ینذر " کا فاعل اللہ بھی ہوسکتا ہے اور " عبد " یعنی رسول بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے یہ کتاب خاص اپنے پاس سے اس لیے اتاری ہے کہ کافروں کو ایک عذاب شدید سے آگاہ و ہوشیار کردے۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا رسول لوگوں کو خدا کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب شدید سے متنبہ کردے۔ پہلی صورت میں " من لدنہ " کا لفظ اہتمام و عنایت پر دلیل ہوگا کہ اس مقصد کے لیے خدا نے خاص اپنے پاس اور اپنی نگرانی میں انتظام فرمایا۔ دوسری صورت میں اس سے عذاب کی شدت کا اظہار ہوگا کہ یہ عذاب کوئی ایسا ویسا عذاب نہیں ہوگا بلکہ قہر الٰہی ہوگا جس سے بچانے والا کوئی نہیں بن سکے گا۔
Top