Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور دو شخصوں کی تمثیل سناؤ۔ ان میں سے ایک کے لیے ہم نے انگوروں کے دو باغ بنائے، ان کو کھجوروں کی قطار سے گھیرا اور ان کے درمیان کھیتی کے قطعات بھی رکھے
آگے کا مضمون۔ آیات 32 تا 44:۔ مومن اور کافر کی ذہنیت کی تمثیل : آگے دو شخصوں کی ایک تمثیل کے ذریعے سے مومن اور کافر دونون کی زہنیت واضھ فرمائی ہے کہ مومن اس دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایک کافر اس کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس تمثیل سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہے کہ جو لوگ قرآن اور نبی ﷺ کی مخالفت کررہے تھے ان کا اصل مغالطہ کیا تھا۔ وہ درحقیقت اپنی اس دنیا کی کامیابی کو اپنے فکر و عمل کی صحت و صداقت کی دلیل سمجھ بیٹھے اور جب مسلمان ان کو خدا اور آخرت سے ڈراتے تو وہ کہتے کہ جب دنیوی اعتبار سے ہمارا حال تم سے اچھا ہے تو لازماً ہمارا ہی عقیدہ اور ہمارا ہی طریقہ بھی اچھا ہے۔ پھر وہ یہیں سے یہ نتیجہ بھی نکال لیتے کہ اول تو آخرت و قیامت وغیرہ محض ایک ہوّا ہے اور بالفرض ہو بھی تو ہم وہاں بھی تم سے اچھے ہی رہیں گے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا قریش کے سامنے تمثیل کا ایک آئینہ : یہ قریش کے متمردین کو ایک تمثیل سنائی جا رہی ہے تاکہ وہ اس کے آئینہ میں اپنا ظاہر و باطن بھی دیکھ لیں اور اس کشمکش حق و باطل کا انجام بھی ان کے سامنے آجائے جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان برپا تھی۔ یہ تمثیل دو ایسے شخصوں کی ہے جن میں سے ایک کو خدا نے دو بہترین باغ دیے تھے اور دوسرے کو اگرچہ اس قسم کی کوئی متاع حاصل نہیں تھی لیکن اس کا سینہ ایمان کی دولت سے مالا مال اور دل خدا کی معرفت سے باغ باغ تھا۔ دو باغوں کا ذکر تکمیل نعمت کی تعبیر کے لیے : دو باغوں کا ذکر تکمیل نعمت کے اظہار کے لیے ہے۔ سورة رحمان میں اہل جنت کے لیے بھی دو جنتوں کا ذکر آتا ہے۔ اس سے مقصود تکمیل نعمت ہے۔ اہل عرب کے نزدیک بہترین باغ کا تصور یہ تھا کہ انگوروں کا باغ ہو، کنارے کنارے کھجوروں کے درخت ہو جو پھل بھی دیں، باغ کی خوب صورتی میں بھی اضافہ کریں اور سموم وغیرہ کی آفتوں سے باغ کی حفاظت بھی کریں۔ علاوہ ازیں باغ میں چھوٹے چھوٹے زراعتی قطعات بھی ہوں جن میں موسم کے حاظ سے ضروری چیزوں کی کاشت کی جاسکے اور بیچ میں نہر ہو جس کی نالیاں باغ کے ہر گوشے میں دوڑا دی گئی ہوں
Top