Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 41
اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًا
اَوْ : یا يُصْبِحَ : ہوجائے مَآؤُهَا : اس کا پانی غَوْرًا : خشک فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ : پھر تو ہرگز نہ کرسکے لَهٗ : اس کو طَلَبًا : طلب (تلاش)
یا اس کا پنی نیچے اتر جائے اور تم اس کو کسی طرح نہ پا سکو
أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا۔ غار الماء غورا کے معنی ہیں پانی زمین میں نیچے اتر گیا۔ یعنی رعد اور اولے نہ سہی، یہ نہر جاری جس سے باغ سیراب ہوتا ہے اگر زمین میں غائب ہوجائے تو تم یا کوئی دوسرا کیا کرسکتا ہے۔ مغروروں کی آنکھ کا پردہ : اوپر مستکبر کا قول گزرا ہے کہ ما اظن ان تبید ھذہ ابدا۔ اس نے اپنے شاداب اور پھلوں سے لدے ہوئے باغ کو دیکھ کر کہا کہ میں یہ گمان بھی نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی تباہ ہوجائے گا۔ یہی ذہن دنیا کے تمام مغروروں اور متکبرین کا ہوتا ہے۔ ان کو جو چین اور عیش حاصل ہوتا ہے وہ اس میں اس طرح کھوجاتے ہیں کہ ان کے اوپر یہ تصور بڑا شاق گزرتا ہے کہ اس میں کہیں سے کوئی رخنہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی ان کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ آخر ان کے قلعہ میں دراڑ پیدا ہونے کا کیا امکان ہے ! لیکن جب وقت آجاتا ہے تو قدرت ایک ہی جنبش میں سارے قلعہ کو زمین بوس کرکے رکھ دیتی ہے اور اس وقت سب کو نظر آجاتا ہے کہ جس چیز کو اتنی بعید سمجھے تھے وہ بالکل پاؤں کے نیچے سے برآمد ہوگئی۔ اسی حقیقت کی طرف عبد مومن نے توجہ دلائی۔
Top