Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ
: کیا تم نے گمان کیا
اَنَّ
: کہ
اَصْحٰبَ الْكَهْفِ
: اصحاب کہف (غار والے)
وَالرَّقِيْمِ
: اور رقیم
كَانُوْا
: وہ تھے
مِنْ
: سے
اٰيٰتِنَا عَجَبًا
: ہماری نشانیاں عجب
کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا !
آگے کا مضمون۔ آیات 9 تا 26: اہل کتاب کے القا کیے ہوئے سوالات : قریش جس انداز سے قرآن اور نبی ﷺ کی مخالفت کر رہے تھے اس کا ذکر اوپر کی آیات میں گزرا۔ اسی مخالفت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس دور میں آنحضرت ﷺ کو زچ کرنے کے لیے اہل کتاب جو مختلف قسم کے اینڈے بینڈے سوالات القا کرتے قریش ان کو بھی اٹھا لیتے اور آپ سے ان کے جواب کا مطالبہ کرتے۔ توح کے متعلق، ذوالقرنین کے متعلق اور اس نوع کے بعض دوسرے سوالات، جن کا قرآن نے حوالہ دیا ہے، اہل کتاب کے اٹھائے ہوئے سوالات تھے۔ اسی نوع کا ایک سوال اصحاب کہف سے متعلق اہل کتاب نے اٹھایا اور ان کے اشارے سے قریش نے اس کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ یہ غیر متعلق سوالات ظاہر ہے کہ حصول علم اور تحقیق کے مقصد سے نہیں کیے جاتے تھے بلکہ صرف آنحضرت ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے کیے جاتے۔ مقصد مخالفین کا صرف یہ ہوتا کہ اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اس جواب نہ دینے کو مخالفت کا بہانہ بنائیں گے کہ دیکھو یہ نبوت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اس سوال کا جواب نہ دے سکے اور اگر جواب دیا اور کوئی بات ان کے مزعومات کے خلاف ہوئی تو اس کو مخالفت کا بہانہ بنائیں گے کہ دیکھو یہ شخص کیا بےپر کی اڑا رہا ہے۔ اصل بات تو یوں ہے اور یہ اس کے برعکس یوں کہہ رہا ہے۔ قصہ اصحاب کہف کے زیر بحث آنے کی نوعیت : یہ بات کہ اصحابِ کہف کا قصہ یہاں مخالفین کے سوال کے جواب میں زیر بحث آیا ہے خود قرآن سے واضح ہے۔ آگے آیات 22 تا 24 میں یہ بات تصریح سے آئے گی کہ قرآن نے اس قصہ سے تعرض سوال کے جواب میں کیا ہے۔ اس قسم کے سوالوں کے باب میں قرآن نے جو رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے وہ تو، جیسا کہ اگے واضح ہوگا، یہ ہے کہ ان سے تعرض ہی نہ کیا جائے بلکہ ان کو ٹال دیا جائے۔ لیکن کوئی سوال اگر مفید ہوا ہے یا اس کے جواب کو کسی مفید تعلیم کا ذریعہ بنایا جاسکا ہے تو قرآن نے اس کا بقدر ضرورت جواب دے دیا ہے۔ اصحابِ کہف کی زندگی چونکہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے، دعوت کے اس پر آزمائش دور میں، نہایت سبق آموز ہوسکتی تھی اس لیے کہ آپ اور آپ کے صحابہ انہی مراحل سے گزر رہے تھے جن سے اصحاب کہف کو گزرنا پڑا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سرگزشت کا اتنا حصہ سنا دیا جتنا حق تھا۔ اس طرح گویا سوال کرنے والوں کے سوال کا جواب بھی ہوگیا، ماضی کی ایک پاکیزہ سرگزشت سے پیغمبر اور صحابہ کو صبر و عزیمت کی تعلیم بھی مل گئی اور اہل حق کی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب، جو افسانوں کے حجاب میں گم تھا، ہر قسم کے گردوغبار سے بالکل پاک صاف ہو کر ازسرنو سامنے آگیا۔ اصحابِ کہف کون تھے ؟ اصحابِ کہف کون تھے ؟ ان کا تعلق تاریخ کے کس دور سے ہے اور یہ کن کے اسلاف میں سے ہیں ؟ ان سوالوں کا کوئی قطعی جواب دینا نہایت مشکل ہے۔ ان کے باب میں قطعیت کے ساتھ اتنی ہی بات کہی جاسکتی ہے جتنی قرآن نے بیان کردی ہے۔ باقی جو کچھ ہے اس کی حیثیت محض افسانہ کی ہے۔ قرآن نے ان کی سرگزشت کا صحیح اور سبق آموز حصہ بیان کرکے ان کے باب میں مزید کھوج کرید کرنے سے، جیسا کہ معلوم ہوگا، منع کردیا ہے۔ اس وجہ سے ہم ایک ایسی چیز کے درپے ہونا پسند نہیں کرتے جس سے قرآن نے روکا ہے۔ البتہ قیاسات و قرائن سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا تعلق قریش یا یہود کی تاریخ سے نہیں ہے بلکہ نصاریٰ کی تاریخ سے ہے۔ ان کے ہاں ایسی روایات ملتی ہے جو اصحابِ کہف کے واقعہ سے مشابہت رکھتی ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ نصاریٰ اپنی تاریخ کے ابتدائی دور میں، جب دین کی خاطر رومیوں کے ہاتھوں ستائے گئے ہیں، اصحابِ کہف نے دعوت حق کی راہ میں وہ بازی کھیلی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں نے توحید اور آخرت کی دعوت حق کی راہ میں وہ بازی کھیلی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں نے توحید اور آخرت کی دعوت پوری بےخوفی سے دی یہاں تک کہ ان کا پورا ماحول ان کا دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوا اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ مخالفین ان کو سنگسار کردیں گے۔ جب معاملہ اس حد کو پہنچ گیا تو ان لوگوں نے ایک غار میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اس غار میں ان کی حفاظت کے لیے وہ سامان بہم پہنچائے جو صرف اللہ ہی بہم پہنچا سکتا تھا۔ بعد میں جب ان کے حالات لوگوں کے علم میں آئے اور تائید الٰہی کی جو شانیں ان کے لیے ظاہر ہوئیں ان کا چرچا ہوا تو ان کی یادگاریں قائم ہوئیں اور ہر گروہ ان کے ساتھ اپنی نسبت کا دعویٰ کرنے لگا۔ اس طرح نصاریٰ میں ایک مقدس روایت کی حیثیت سے ان کا ذکر باقی رہا لیکن یہ ذکر آہستہ آہستہ بس چند کر امتوں اور چند لاطائل بحثوں تک محدود رہ گیا۔ ان کی زندگی کا اصل کارنامہ نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوگیا۔ اس سوال پر تو ان کے ہاں مناظرے ہوتے کہ ان کی تعداد کیا تھی ؟ ان کا کتا تین کا چوتھا یا پانچ کا چھٹا ؟ لیکن یہ خبر کسی کو نہ تھی کہ ان کی دعوت کیا تھی اور اس دعوت کی راہ میں انہوں نے کیا قربانیاں دیں اور یہ بحثیں بھی غالباً اسی زمانہ تک باقی رہیں جب تک اصل نصرانیت کے کچھ بقایا موجود رہے۔ بعد میں جب پال نے نصرانیت کا حلیہ بالکل بگاڑ ڈالا تو نصاریٰ کے اصل اسلاف کی تمام روایتیں بھی پردۂ خفا میں چھپ گئیں۔ عرب کے نصاری میں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں سے متعلق کچھ روایات باقی تھیں لیکن بالکل مسخ ہوکر۔ انہی نصاریٰ کی شہ سے یہ سوال آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا اور قرآن نے اس لیے اس کا جواب دیا کہ اس سے دعوت کے اس پر آشوب دور میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بڑی تقویت حاصل ہوسکتی تھی۔ جس طرح اصحاب کہف اپنے ماحول میں ہدف مظالم بنے تھے اسی طرح آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ بھی قریش کے مظالم کے ہدف تھے اور جس طرح اصحاب کہف کو غار میں پناہ لینی پڑی اسی طرح آپ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے سامنے بھی ہجرت حبشہ، غار ثور اور ہجرتِ مدینہ کے مراحل آنے والے تھے۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت کیجیے۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا۔ صیغہ واحد کا خطاب جماعت سے : " حَسِبْتَ " کا خطاب ضروری نہیں کہ آنحضرت ﷺ ہی سے ہو بلکہ " الم تر " کے خطاب کی طرح یہ عام بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے خطاب میں، جیسا کہ ہم پیچھے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں ذکر کرچکے ہیں، مخاطب گروہ کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور جمع کے خطاب کے بالمقابل اس میں زیادہ زور ہوتا ہے۔ خود اسی سلسلہ کلام میں آگے متعدد خطابات بصیغۂ واحد ہیں۔ لیکن ان سب میں خطاب آنحضرت ﷺ سے نہیں بلکہ مخاطب کردہ سے ہے۔ مثلاً وتری الشمس آیت 17، لو اطلعت، لولیت، ولملئت، یہ خطاب سوال کرنے والوں سے ہے : یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے یہ فرمانے کا کیا محل ہے کہ کیا تم اصحابِ کہف و رقیم کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ عجیب چیز خیال کرتے ہو ؟ آنحضرت ﷺ اول تو اس سرگزشت سے واقف ہی نہیں تھے۔ اول اول آپ اس وحی کے ذریعہ ہی سے اس سے واقف ہوئے اور بالفرض آپ کچھ واقف رہے بھی ہوں تو اس میں آپ کے لیے تعجب اور حیرت کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ عجیب سرگزشتیں آپ کو سابق انبیائے کرام کی سنائی جاچکی تھیں۔ پھر آپ کے اصحاب کہف کے معاملہ کو عجیب اور نادر سمجھنے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی ! ہمارے نزدیک یہ سوال خطاب کرنے والوں سے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ان کے پیش نظر اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظر میں آنحضرت ﷺ اور اور آپ کے صحابہ کی وقعت گھٹائیں کہ ہمارے ہاں تو اصحابِ کہف جیسے اولیائے کبار گزرے ہیں جن کے لیے خدا کی قدرت کی نہایت عظیم شانیں ظاہر ہوئیں تو ہم کسی اور کی ہدایت و رہنمائی کے محتاج کب ہوسکتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے نبی کی ہدایت کے جس کے اندر ہم اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں پا رہے ہیں۔ یہ بات یہاں پیش نظر رہے کہ اس دور میں یہود و نصاری دونوں کھلم کھلا یہ بات کہنے لگے تھے کہ جس کو ہدایت کی طلب ہو وہ یہودی بنے یا نصرانی، یہ نیا دین بھلا کیا ہے، اس سے بہتر تو مشرکین ہی کا دین ہے ! سوال اٹھانے والوں کی اس پس پردہ ذہنیت کو سامنے رکھ کر قرآن نے جواب کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ اگر تم اصحابِ کہف کے ماجرے کو بہت عجیب چیز سمجھتے ہو تو یہ بہت عجیب چیز نہیں ہے۔ یہ خدا کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں، اور آئندہ بھی ان لوگوں کے لیے ظاہر ہوں گی جن کے لیے خدا چاہے گا۔ یہ نشانیاں خدا کے اختیار میں ہیں۔ ان پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ آیت کے خطاب کے معاملے میں ہماری رائے یہی ہے لیکن کوئی شخص اس کا مخاطب آنحضرت ہی کو قرار دینا چاہے تو اس صورت میں آیت کی تاویل یہ ہوگی کہ اگر معروف روایات کی بنا پر اصحاب کہف کے ماجرے کو عجیب سمجھتے ہو تو یہ کوئی عجیب چیز نہیں۔ خدا کی اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گی۔ اس میں گویا آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے کہ جس طرح خدا نے پہلے اپنے دین کے علمبرداروں کی حفاظت کے لیے اپنی قدرت کی شانیں ظاہر کی ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی ہر مرحلہ میں اس کی شانیں ظاہر ہوں گی۔ اصحاب کہف و رقیم کی وجہ تسمیہ : رہا یہ سوال کہ ان لوگوں کو اصحاب کہف و رقیم کیوں کہا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے اہل کتاب میں یہ لوگ اسی لقب سے معروف تھے۔ " کہف " کی طرف تو ان کی نسبت ظاہر ہے کہ غار میں پناہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔ رہا " رقیم " تو اس کے بارے میں ہمارے نزدیک راجح قول وہ ہے جس کی روایت عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے کی ہے کہ حضرت کعب کا خیال تھا کہ رقیم اس بستی کا نام تھا، جس سے نکل کر اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی۔ رقیم وادی کو بھی کہتے ہیں۔ ناموں کے بارے میں یہ تحقیق کہ ان کی اصل کیا ہے غیر ضروری بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ عجمی نام عربی کے قابل میں آ کر اس قدر بدل جاتے ہیں کہ ان کی اصل کی تحقیق کوہ کنی کے مترادف بن جاتی ہے اور مقصد تعلیم کے پہلو سے اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں۔ اگر یہ نام قرآن نے رکھا ہوتا تب تو اس کے معنی اور اس کی اصل کی جستجو کی ایک خاص اہمیت بھی نہیں۔ اگر یہ نام قرآن نے رکھا ہوتا تب تو اس کے معنی اور اس کی اصل کی جستجو کی ایک خاص اہمیت تھی۔ لیکن یہ نام، جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ عرب کے اہل کتاب بالخصوص نصاری کا اختیار کردہ ہے۔ قرآن نے اسی کو اختیار کرلیا ہے۔ دورِ حاضر کے بعض محققین کی رائے میں رقیم وہی شہر ہے جسے پیٹرا کے نام سے شہر ملی اور عرب اسے بطرا کے نام سے جانتے ہیں۔
Top