Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 9
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِ١ۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا
اَمْ حَسِبْتَ : کیا تم نے گمان کیا اَنَّ : کہ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ : اصحاب کہف (غار والے) وَالرَّقِيْمِ : اور رقیم كَانُوْا : وہ تھے مِنْ : سے اٰيٰتِنَا عَجَبًا : ہماری نشانیاں عجب
کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا !
آگے کا مضمون۔ آیات 9 تا 26: اہل کتاب کے القا کیے ہوئے سوالات : قریش جس انداز سے قرآن اور نبی ﷺ کی مخالفت کر رہے تھے اس کا ذکر اوپر کی آیات میں گزرا۔ اسی مخالفت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس دور میں آنحضرت ﷺ کو زچ کرنے کے لیے اہل کتاب جو مختلف قسم کے اینڈے بینڈے سوالات القا کرتے قریش ان کو بھی اٹھا لیتے اور آپ سے ان کے جواب کا مطالبہ کرتے۔ توح کے متعلق، ذوالقرنین کے متعلق اور اس نوع کے بعض دوسرے سوالات، جن کا قرآن نے حوالہ دیا ہے، اہل کتاب کے اٹھائے ہوئے سوالات تھے۔ اسی نوع کا ایک سوال اصحاب کہف سے متعلق اہل کتاب نے اٹھایا اور ان کے اشارے سے قریش نے اس کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا۔ یہ غیر متعلق سوالات ظاہر ہے کہ حصول علم اور تحقیق کے مقصد سے نہیں کیے جاتے تھے بلکہ صرف آنحضرت ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے کیے جاتے۔ مقصد مخالفین کا صرف یہ ہوتا کہ اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اس جواب نہ دینے کو مخالفت کا بہانہ بنائیں گے کہ دیکھو یہ نبوت کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہمارے اس سوال کا جواب نہ دے سکے اور اگر جواب دیا اور کوئی بات ان کے مزعومات کے خلاف ہوئی تو اس کو مخالفت کا بہانہ بنائیں گے کہ دیکھو یہ شخص کیا بےپر کی اڑا رہا ہے۔ اصل بات تو یوں ہے اور یہ اس کے برعکس یوں کہہ رہا ہے۔ قصہ اصحاب کہف کے زیر بحث آنے کی نوعیت : یہ بات کہ اصحابِ کہف کا قصہ یہاں مخالفین کے سوال کے جواب میں زیر بحث آیا ہے خود قرآن سے واضح ہے۔ آگے آیات 22 تا 24 میں یہ بات تصریح سے آئے گی کہ قرآن نے اس قصہ سے تعرض سوال کے جواب میں کیا ہے۔ اس قسم کے سوالوں کے باب میں قرآن نے جو رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے وہ تو، جیسا کہ اگے واضح ہوگا، یہ ہے کہ ان سے تعرض ہی نہ کیا جائے بلکہ ان کو ٹال دیا جائے۔ لیکن کوئی سوال اگر مفید ہوا ہے یا اس کے جواب کو کسی مفید تعلیم کا ذریعہ بنایا جاسکا ہے تو قرآن نے اس کا بقدر ضرورت جواب دے دیا ہے۔ اصحابِ کہف کی زندگی چونکہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے، دعوت کے اس پر آزمائش دور میں، نہایت سبق آموز ہوسکتی تھی اس لیے کہ آپ اور آپ کے صحابہ انہی مراحل سے گزر رہے تھے جن سے اصحاب کہف کو گزرنا پڑا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سرگزشت کا اتنا حصہ سنا دیا جتنا حق تھا۔ اس طرح گویا سوال کرنے والوں کے سوال کا جواب بھی ہوگیا، ماضی کی ایک پاکیزہ سرگزشت سے پیغمبر اور صحابہ کو صبر و عزیمت کی تعلیم بھی مل گئی اور اہل حق کی تاریخ کا ایک نہایت اہم باب، جو افسانوں کے حجاب میں گم تھا، ہر قسم کے گردوغبار سے بالکل پاک صاف ہو کر ازسرنو سامنے آگیا۔ اصحابِ کہف کون تھے ؟ اصحابِ کہف کون تھے ؟ ان کا تعلق تاریخ کے کس دور سے ہے اور یہ کن کے اسلاف میں سے ہیں ؟ ان سوالوں کا کوئی قطعی جواب دینا نہایت مشکل ہے۔ ان کے باب میں قطعیت کے ساتھ اتنی ہی بات کہی جاسکتی ہے جتنی قرآن نے بیان کردی ہے۔ باقی جو کچھ ہے اس کی حیثیت محض افسانہ کی ہے۔ قرآن نے ان کی سرگزشت کا صحیح اور سبق آموز حصہ بیان کرکے ان کے باب میں مزید کھوج کرید کرنے سے، جیسا کہ معلوم ہوگا، منع کردیا ہے۔ اس وجہ سے ہم ایک ایسی چیز کے درپے ہونا پسند نہیں کرتے جس سے قرآن نے روکا ہے۔ البتہ قیاسات و قرائن سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا تعلق قریش یا یہود کی تاریخ سے نہیں ہے بلکہ نصاریٰ کی تاریخ سے ہے۔ ان کے ہاں ایسی روایات ملتی ہے جو اصحابِ کہف کے واقعہ سے مشابہت رکھتی ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ نصاریٰ اپنی تاریخ کے ابتدائی دور میں، جب دین کی خاطر رومیوں کے ہاتھوں ستائے گئے ہیں، اصحابِ کہف نے دعوت حق کی راہ میں وہ بازی کھیلی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں نے توحید اور آخرت کی دعوت حق کی راہ میں وہ بازی کھیلی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں نے توحید اور آخرت کی دعوت پوری بےخوفی سے دی یہاں تک کہ ان کا پورا ماحول ان کا دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوا اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ مخالفین ان کو سنگسار کردیں گے۔ جب معاملہ اس حد کو پہنچ گیا تو ان لوگوں نے ایک غار میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اس غار میں ان کی حفاظت کے لیے وہ سامان بہم پہنچائے جو صرف اللہ ہی بہم پہنچا سکتا تھا۔ بعد میں جب ان کے حالات لوگوں کے علم میں آئے اور تائید الٰہی کی جو شانیں ان کے لیے ظاہر ہوئیں ان کا چرچا ہوا تو ان کی یادگاریں قائم ہوئیں اور ہر گروہ ان کے ساتھ اپنی نسبت کا دعویٰ کرنے لگا۔ اس طرح نصاریٰ میں ایک مقدس روایت کی حیثیت سے ان کا ذکر باقی رہا لیکن یہ ذکر آہستہ آہستہ بس چند کر امتوں اور چند لاطائل بحثوں تک محدود رہ گیا۔ ان کی زندگی کا اصل کارنامہ نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوگیا۔ اس سوال پر تو ان کے ہاں مناظرے ہوتے کہ ان کی تعداد کیا تھی ؟ ان کا کتا تین کا چوتھا یا پانچ کا چھٹا ؟ لیکن یہ خبر کسی کو نہ تھی کہ ان کی دعوت کیا تھی اور اس دعوت کی راہ میں انہوں نے کیا قربانیاں دیں اور یہ بحثیں بھی غالباً اسی زمانہ تک باقی رہیں جب تک اصل نصرانیت کے کچھ بقایا موجود رہے۔ بعد میں جب پال نے نصرانیت کا حلیہ بالکل بگاڑ ڈالا تو نصاریٰ کے اصل اسلاف کی تمام روایتیں بھی پردۂ خفا میں چھپ گئیں۔ عرب کے نصاری میں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں سے متعلق کچھ روایات باقی تھیں لیکن بالکل مسخ ہوکر۔ انہی نصاریٰ کی شہ سے یہ سوال آنحضرت ﷺ کے سامنے لایا گیا اور قرآن نے اس لیے اس کا جواب دیا کہ اس سے دعوت کے اس پر آشوب دور میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کو بڑی تقویت حاصل ہوسکتی تھی۔ جس طرح اصحاب کہف اپنے ماحول میں ہدف مظالم بنے تھے اسی طرح آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ بھی قریش کے مظالم کے ہدف تھے اور جس طرح اصحاب کہف کو غار میں پناہ لینی پڑی اسی طرح آپ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے سامنے بھی ہجرت حبشہ، غار ثور اور ہجرتِ مدینہ کے مراحل آنے والے تھے۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت کیجیے۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا۔ صیغہ واحد کا خطاب جماعت سے : " حَسِبْتَ " کا خطاب ضروری نہیں کہ آنحضرت ﷺ ہی سے ہو بلکہ " الم تر " کے خطاب کی طرح یہ عام بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے خطاب میں، جیسا کہ ہم پیچھے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں ذکر کرچکے ہیں، مخاطب گروہ کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور جمع کے خطاب کے بالمقابل اس میں زیادہ زور ہوتا ہے۔ خود اسی سلسلہ کلام میں آگے متعدد خطابات بصیغۂ واحد ہیں۔ لیکن ان سب میں خطاب آنحضرت ﷺ سے نہیں بلکہ مخاطب کردہ سے ہے۔ مثلاً وتری الشمس آیت 17، لو اطلعت، لولیت، ولملئت، یہ خطاب سوال کرنے والوں سے ہے : یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے یہ فرمانے کا کیا محل ہے کہ کیا تم اصحابِ کہف و رقیم کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ عجیب چیز خیال کرتے ہو ؟ آنحضرت ﷺ اول تو اس سرگزشت سے واقف ہی نہیں تھے۔ اول اول آپ اس وحی کے ذریعہ ہی سے اس سے واقف ہوئے اور بالفرض آپ کچھ واقف رہے بھی ہوں تو اس میں آپ کے لیے تعجب اور حیرت کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ عجیب سرگزشتیں آپ کو سابق انبیائے کرام کی سنائی جاچکی تھیں۔ پھر آپ کے اصحاب کہف کے معاملہ کو عجیب اور نادر سمجھنے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی ! ہمارے نزدیک یہ سوال خطاب کرنے والوں سے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ان کے پیش نظر اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظر میں آنحضرت ﷺ اور اور آپ کے صحابہ کی وقعت گھٹائیں کہ ہمارے ہاں تو اصحابِ کہف جیسے اولیائے کبار گزرے ہیں جن کے لیے خدا کی قدرت کی نہایت عظیم شانیں ظاہر ہوئیں تو ہم کسی اور کی ہدایت و رہنمائی کے محتاج کب ہوسکتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے نبی کی ہدایت کے جس کے اندر ہم اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں پا رہے ہیں۔ یہ بات یہاں پیش نظر رہے کہ اس دور میں یہود و نصاری دونوں کھلم کھلا یہ بات کہنے لگے تھے کہ جس کو ہدایت کی طلب ہو وہ یہودی بنے یا نصرانی، یہ نیا دین بھلا کیا ہے، اس سے بہتر تو مشرکین ہی کا دین ہے ! سوال اٹھانے والوں کی اس پس پردہ ذہنیت کو سامنے رکھ کر قرآن نے جواب کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ اگر تم اصحابِ کہف کے ماجرے کو بہت عجیب چیز سمجھتے ہو تو یہ بہت عجیب چیز نہیں ہے۔ یہ خدا کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں، اور آئندہ بھی ان لوگوں کے لیے ظاہر ہوں گی جن کے لیے خدا چاہے گا۔ یہ نشانیاں خدا کے اختیار میں ہیں۔ ان پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔ آیت کے خطاب کے معاملے میں ہماری رائے یہی ہے لیکن کوئی شخص اس کا مخاطب آنحضرت ہی کو قرار دینا چاہے تو اس صورت میں آیت کی تاویل یہ ہوگی کہ اگر معروف روایات کی بنا پر اصحاب کہف کے ماجرے کو عجیب سمجھتے ہو تو یہ کوئی عجیب چیز نہیں۔ خدا کی اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گی۔ اس میں گویا آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے کہ جس طرح خدا نے پہلے اپنے دین کے علمبرداروں کی حفاظت کے لیے اپنی قدرت کی شانیں ظاہر کی ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی ہر مرحلہ میں اس کی شانیں ظاہر ہوں گی۔ اصحاب کہف و رقیم کی وجہ تسمیہ : رہا یہ سوال کہ ان لوگوں کو اصحاب کہف و رقیم کیوں کہا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے اہل کتاب میں یہ لوگ اسی لقب سے معروف تھے۔ " کہف " کی طرف تو ان کی نسبت ظاہر ہے کہ غار میں پناہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔ رہا " رقیم " تو اس کے بارے میں ہمارے نزدیک راجح قول وہ ہے جس کی روایت عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے کی ہے کہ حضرت کعب کا خیال تھا کہ رقیم اس بستی کا نام تھا، جس سے نکل کر اصحابِ کہف نے غار میں پناہ لی۔ رقیم وادی کو بھی کہتے ہیں۔ ناموں کے بارے میں یہ تحقیق کہ ان کی اصل کیا ہے غیر ضروری بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ عجمی نام عربی کے قابل میں آ کر اس قدر بدل جاتے ہیں کہ ان کی اصل کی تحقیق کوہ کنی کے مترادف بن جاتی ہے اور مقصد تعلیم کے پہلو سے اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں۔ اگر یہ نام قرآن نے رکھا ہوتا تب تو اس کے معنی اور اس کی اصل کی جستجو کی ایک خاص اہمیت بھی نہیں۔ اگر یہ نام قرآن نے رکھا ہوتا تب تو اس کے معنی اور اس کی اصل کی جستجو کی ایک خاص اہمیت تھی۔ لیکن یہ نام، جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ عرب کے اہل کتاب بالخصوص نصاری کا اختیار کردہ ہے۔ قرآن نے اسی کو اختیار کرلیا ہے۔ دورِ حاضر کے بعض محققین کی رائے میں رقیم وہی شہر ہے جسے پیٹرا کے نام سے شہر ملی اور عرب اسے بطرا کے نام سے جانتے ہیں۔
Top