Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ رحمان اور رحیم ہے۔
آیات 163 تا 176 کا خلاصہ مضامین : سورة کے مطالب کا دوسرا باب : آیت 162 پر اس سورة کا پہلا باب ختم ہوا۔ اس باب میں یہود منصب امامت سے معزول ہوئے اور ایک نئی امت اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ نمایاں ہوئی۔ اب آگے آیت 163 سے اس سورة کے مطالب کا دوسرا باب شروع ہورہا ہے جس میں اس نئی امت کے لیے از سرِ نو شریعت الٰہی کی تجدید کی جا رہی ہے۔ اس باب میں ایک مناسب ترتیب کے ساتھ امت کو وہ احکام دیے گئے ہیں جن کے لیے سورة کے زمانہ نزول کے حالات متقاضی تھے اور ساتھ ہی ہر حکم کے تحت ان بدعا کی تردید کی گئی ہے جو یہود یا مشرکین نے شریعت الٰہی میں ملا دی تھیں۔ اس باب کا آغاز توحید کے بیان سے ہو رہا ہے اس لیے کہ تمام دین کی بنیاد اسی چیز پر ہے۔ توحید کے دعوے کے ذکر کے بعد اس کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ توحید کی یہ دلیل وہی دلیل ہے جس کی طرف اس کتاب کی فصل 23 میں ہم دلیل توافق کے نام سے اشارہ کرچکے ہیں۔ یہاں یہ دلیل اپنے بعض نئے پہلوؤں کے ساتھ نمایاں ہوئی ہے جن کی وضاحت آیات کی تفسیر کے تحت آئے گی۔ پھر شرک کی تردید فرمائی ہے اس ضمن میں کسی چیز کو خدا کے حکم کے بغیر حرام یا حلال ٹھہرانے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ چیز بھی شرک ہی میں داخل ہے۔ پھر ان چیزوں کی طرف ایک سرسری اشارہ فرمایا جو فی الواقع اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ مشرکین یا اہل کتاب نے بعض چیزیں جو اپنے جی سے محض اپنے مشرکانہ توہمات کے تحت یا اپنی خواہشوں کے لیے حرام یا حلال کی ہیں ان کی تحریم وتحلیل کو شریعت الٰہی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد چند آیات میں مشرکین کو ان کی اندھی بہری تقلید آبا پر اور اہل کتاب کو ان کی حق پوشی پر سرزنش فرمائی ہے کہ اگر یہ عقل سے کام لیتے اور محض خواہشات نفس کی پیروی میں ضلالت کو ہدایت پر ترجیح نہ دیتے تو وہ توحید کی مخالفت اور شرک کی حمایت نہ کرتے لیکن انہوں نے اپنی شامت اعمال سے اپنے لیے ابدی ہلاکت کی یہی راہ اختیار کی ہے۔ اس روشنی میں اب آگے کی آیات کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔ الٰہ کے معنی معبود کے ہیں۔ اسی پر الف لام تعریف کا داخل کر کے لفظ اللہ، اللہ تعالیٰ کے لیے بطور اسم ذات استعمال ہوا۔ رحمان اور رحیم کی تحقیق اور ان دونوں کے فرق کے وضاحت سورة فاتحہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ یہ توحید ہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی چیز ہے جو ملت ابراہیم کی وراثت کی حیثیت سے اس امت مسلمہ کی مطرف منتقل ہوئی۔ اس کا ذکر یہاں مثبت اور منفی دونوں ہی پہلوؤں سے فرمایا ہے تاکہ اس میں کسی رخنہ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس میں اگر کوئی رخنہ پیدا ہوجائے تو یہ بنیاد کا رخنہ ہے جس سے شیطان کو پورے دین میں رخنہ اندازی کے لیے راہ مل جاتی ہے۔ " رحمان اور رحیم کے ذکر کے پہلو " : اس توحید کے ذکر کے ساتھ اسمائے حسنی میں سے رحمان اور رحیم کا حوالہ دو مختلف پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ شرک کے اسباب و محرکات میں سے ایک بہت بڑا سبب خدا کے ہر قسم کے شغل وعمل اور ہر نوع کے تعلق سے ارفع اور بالا تر ہونے کا غلط تصور بھی ہے۔ یہ تصور ہے تو ایک تنزیہی تصور لیکن بعض صورتوں میں یہ خدا کی بےہمگی کو اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ خلق سے اس کا تعلق بالکل ہی منقطع ہوجاتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنا یا خلق کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق رکھنا اس کی شان الوہیت کے منافی قرار پایا جاتا ہے۔ خدا کے بےہمگی کا یہ تصور فطری طور پر دلوں میں اس کی طرف سے ایک مایوسی پیدا کرتا ہے اور یہ مایوسی بالآخر ان وسائل و وسایط کو جنم دیتی ہے جن کو انسان خدا کے نہ پاسکنے کی شکل میں اپنے لیے تسلی و طمانیت کا ذریعہ بناتا ہے۔ قرآن نے معرفت الٰہی کی راہ کے اس مغالطے کو دور کرنے کے لیے جگہ جگہ یہ کیا ہے کہ خدا کی وحدانیت، اس کی بےہمگی اور اس کی برتری کے بیان کے ساتھ ساتھ اس کی ایسی صفات کا بھی حوالہ دے دیا ہے جو خلق کے ساتھ اس کے تعلق کو واضح کرنے والی ہیں تاکہ انسان وسائل و وسائط کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے خود خدا کے دامن رحمت کو پکڑنے اور اسی میں چھپنے کی کوشش کرے۔ چناچہ اس پہلو سے سورة اخلاص میں، جو توحید کی سب سے بڑی سورة ہے، اگر ایک طرف خدا کی بےہمگی کو واضح کرنے کے لیے ھو اللہ احد (وہ اللہ بےہمہ ہے) فرمایا تو ساتھ ہی اس کی باہمگی کو واضح کرنے کے لیے اللہ الصمد (اللہ باہمہ ہے) بھی فرما دیا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ خدا سب سے بےنیاز اور بالا تر ہونے کے باوجود سب کے لیے پناہ، سب کے لیے مرجع اور سب کے لیے سہارے کی چٹان بھی ہے۔ اسی اصول پر زیر بحث آیت میں بھی خدا کی وحدانیت کو مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے بیان کرنے کے بعد یہ بھی واضح فرما دیا کہ وہ خدا رحمان اور رحیم ہے۔ ہم سورة فاتحہ میں ان دونوں لفظوں کی وضاحت کرچکے ہیں کہ ان میں سے پہلا لفظ خدا کی رحمت کے جوش پر دلالت کرتا ہے اور دوسرا اس کی رحمت کے تسلسل اور دوام پر۔ مقصد یہ ہے کہ خدا ہے تو واحد اور یکتا، سب سے بےنیاز، اور سب سے بالا تر لیکن وہ رحمان اور رحیم بھی ہے۔ اس نے اپنے جوش رحمت سے تمہیں وجود بخشا ہے، اپنی رحمت ہی کے آغوش میں تمہاری تربیت اور پرورش کر رہا ہے اور اپنی اس رحمت ہی کے لیے اس نے تمہارے واسطے جزا اور سزا کا ایک دن مقرر کیا ہے پس تم اسی کے لیے جیو اور اسی کے لیے مرد اور اپنی تمام آرزوئیں اور امیدیں اکیلے اسی سے وابستہ کرو۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرک اور بت پرست قوموں نے ہمیشہ قہر و غضب کو الوہیت کے ضروری لوازم میں سے سمجھا ہے۔ انہوں نے کائنات کے بادشاہ کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ جب دنیا کے بادشاہ صرف ایک ایک علاقے کے بادشاہ ہو کر یہ جلال وجبروت رکھتے ہیں کہ ان کے مقربین اور درباریوں کے سوا کسی کے لیے بھی ان کے سامنے مجال دم زدن نہیں ہوتی، وہ جس کو چاہیں اور جب چاہیں دار پر چڑھا دیتے ہیں تو جو سارے جہان کا بادشاہ ہے اس کے جلال و جبروت اور اس کے قہر و غضب کا اندازہ کون کرسکتا ہے اس طرح انہوں نے خدا کا تصور ایک نہایت خوفناک اور ہولناک ہستی کی حیثیت سے کیا اور پھر اس کے کچھ مقربین اور درباری محض اپنے ذہن سے ایجاد کر کے ان کی پرستش شروع کی تاکہ یہ ان کو اس ہولناک خدا کی آفتوں سے محفوظ رکھیں۔ آسمانی مذاہب رکھنے والی قومیں اگرچہ خدا کے صحیح تصور سے نا آشنا نہیں تھیں لیکن امتدادِ زمانہ نے مشرک قوموں کے اثرات سے انکے عقائد کو بھی آلودہ کردیا اور ان کے یہاں بھی خدا کی جمالی صفات پر اس کی جلالی صفات کا رنگ غالب ہوگیا۔ چناچہ تورات کے مطالعہ سے یہ حقیقت صاف عیاں ہوتی ہے کہ یہود نے بھی خدا کے قہر و جلال کی داستان اتنی بڑھا دی تھی کہ اس کے مقابل میں خدا کے رحمان و رحیم ہونے کا تصور بالکل دب گیا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ بھی مشرک قوموں کی طرح خدا کی رحمت حاصل کرنے کے لیے مقربین اور سفارشیوں کے محتاج ہوئے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ان بزرگوں کو وسیلہ ٹھہرایا جن کے تقدس و تقرب کی روایتیں ان کے ہاں موجود تھیں اور پھر آہستہ آہستہ خاندان اسرائیل کو تو انہوں نے خدا کے چہیتوں اور محبوبوں میں شامل کرلیا اور غیر بنی اسرائیل خدا کے قہر و غضب کے لیے رہ گئے۔ چونکہ آیت زیر بحث میں توحید کی یہ امانت بنی اسرائیل سے واپس لے کر امت مسلمہ کے حوالے کی جا رہی ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ خدا کی صفاتِ رحمانیت و رحیمیت پر سے وہ پردہ اٹھا دیا جائے جو مشرکین تقلید میں یہود نے ان پر ڈال دیا تھا تاکہ یہ امت صفاتِ الٰہی کے باب میں اس نقطہ اعتدال پر آجائے جو امت وسط ہونے کے پہلو سے اس کے مزاج کی خصوصیت ہے اور اس طرح شرک کے فتنوں کا سد باب ہوجائے۔ ہم یہاں صرف انہی دو پہلوؤں کے ذکر پر قناعت کرتے ہیں۔ اس کے کچھ اور پہلو بھی توجہ کے قابل ہیں لیکن ان کے ذکر کے لیے ہماری اس کتاب میں زیادہ موزوں مواقع آگے آئیں گے۔
Top