Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 200
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا١ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمْ : تم ادا کرچکو مَّنَاسِكَكُمْ : حج کے مراسم فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَذِكْرِكُمْ : جیسی تمہاری یاد اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ ذِكْرًا : یاد فَمِنَ النَّاسِ : پس۔ سے۔ آدمی مَنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي : میں اَلدُّنْیَا : دنیا وَمَا : اور نہیں لَهٗ : اس کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنْ خَلَاقٍ : کچھ حصہ
پھر جب تم حج کے مناسک ادا کرچکو تو اللہ کو یاد کرو، جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں کامیابی عطا کر، حالانکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے
مناسک حج سے فراغت کے بعد لوگوں پر، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں، تفریحات اور دلچسپیوں کا موڈ طاری ہوتا تھا اور شعر و شاعری اور مفاخرت کی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں، خاص کر قیام منیٰ کے ایام تو انہی چیزوں کے لیے خاص ہو کر رہ گئے تھے۔ شعرا اور خطباء اپنے اپنے قبیلوں اور اپنے اپنے آباء و اجداد کے مفاخر نثر و نظم میں بیان کرتے اور طلاقت لسانی سے ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کی کوشش کرتے۔ قرآن نے اس لغویت کی بھی اصلاح کی اور اس کی جگہ اس سے زیادہ اہتمام اور اس سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔ طالبین دنیا کو تنبیہ : فمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ لایۃ، یہ اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جن کے دل و دماغ کے ہر گوشے پر محبت دنیا کا غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبہ کی وجہ سے وہ ہر جگہ اسی چیز پر نگاہ رکھتے ہیں جو ان کے دل میں سر فہرست ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر انہیں حج جیسی عظیم عبادت کا موقع بھی نصیب ہوتا ہے تو اس میں بھی قبولیت دعا کے ہر موقع و محل میں خدا سے اپنی دنیوی آرزؤوں ہی کی تکمیل کے دعا کرتے ہیں۔ در آنحالیکہ ان کی آخرت کا خانہ بالکل ہی خالی ہوتا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو حج کرتے ہی اپنے کسی نہ کسی دنیوی مقصد کے لیے ہیں۔ وہ جس مقام کو بھی سمجھتے ہیں کہ یہاں دعا قبول ہوتی ہے وہاں وہ اپنی وہی درخواست پیش کرتے ہیں جو ان کے دل پر غالب ہوتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ اخروی فلاح کا کوئی ذکر بھی پسند نہیں کرتے کہ مبادا یہ چیز ان کی اصل آرزو کے لیے خدا کے سامنے کوئی حجاب بن جائے۔ اسی طرح کے لوگ ہیں جنہوں نے دین کی ہر چیز کو دنیوی مفادات کے سانچوں میں ڈھالنے کی وشش کی ہے، جس سے دین کا حلیہ بگڑا ہے، اسی طرح کے لوگ تھے جن کی دنیا پرستیوں نے حج جیسی عظیم عبادت کو بھی زمانہ جاہلیت میں، جیسا کہ اوپر گزرا، ایک تجارتی میلے کی شکل میں بدل دیا، اور یہی رحجان ہے جو اس دور میں حج کو صرف ایک سالانہ کا نگریس کی حیثیت سے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ حج کی اصل ابراہیمی روح ہجرت الی اللہ ہے۔ اس کے دنیوی فوائد صرف ضمنی ہیں۔
Top