Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 202
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
یہی لوگ ہیں جن کو ان کے کیے کا حصہ ملنا ہے اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا (یہی لوگ ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پائیں گے) پہلے گروہ کے متعلق، جو صرف دنیا کا طالب بنتا ہے، یہ فرما دیا کہ " ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے " لیکن اس دوسرے گروہ کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ اپنی کمائی کا حصہ پائیں گے اور یہ حصہ اس اصول کے مطابق ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے نے اپنے نیک بندوں کی نیکیوں کے بدلہ کے لیے مقرر فرما رکھا ہے۔ وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ (اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے)۔ تہدید اور تسلی دونوں موقعوں کے لیے موزوں ہے اور قرآن مجید میں یہ دونوں ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے۔ جو لوگ آخرت کے عذاب وثواب کو ایک بہت بعید چیز سمجھ کر اپنی بد عملیوں میں بد مست رہتے ہیں کہ جو چیز اتنی دور ہے اس کی فکر میں ابھی سے مبتلا ہو کر اپنے عیش کو کیوں مکدر کریں، ان کو ان الفاظ سے یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ آج تم جس حساب و کتاب کو بہت دور کی چیز سمجھ رہے ہو جب وہ سر پر آئے گا تو تم یہ سمجھو گے کہ اس پر تو ایک صبح و شام بھی نہیں گزری۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کے اچھے وعدوں کو وعدہ فردا سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کے ظہور میں ایک غیر متناہی مدت باقی ہے، ان کو ان الفاظ سے یہ تسلی دی جاتی ہے کہ اطمینان رکھو، خدا کے وعدوں کے پورے ہونے میں دیر نہیں ہوگی، جب تمہیں اجر ملے گا تو محسوس کروگے کہ تمہاری مزدوری تمہارا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی تم کو مل گئی۔ موقع دلیل ہے کہ یہاں یہ دھمکی کے سیاق میں نہیں بلکہ تسلی کے سیاق میں ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ ان معاملات میں ساری اہمیت اس احساس کی ہے جو انسان کو جزا و سزا کے وقت ہوگا۔ اگر جز و اسزا کے وقت کا احساس یہی ہوگا کہ عمل اور جزا کے درمیان کا فاصلہ اب بالکل غائب ہوگیا تو پھر یہ فاصلہ بالکل ناقابل لحاظ ہے۔ پھر تو صحیح یہی ہے کہ مجرم اپنی سزا کو سامنے رکھے اور مومن اپنی جزا کو۔ نہ وہ مہلت سے مفرور ہو نہ یہ تاخیر سے بےصبر۔ اور اگر کوئی شخص اپنی نافہمی سے اس فاصلہ کو اہمیت دے بھی تو اسے یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ " من مات فقد قامت قیامت ہ " کہ جو شخص مرا اس کی قیامت کھڑی ہوگئی۔ جو مومن ہے، آنکھ بند ہوتے ہی، اس پر اس کے نیک اعمال کی کیفیات کا ظہور شروع ہوجاتا ہے اور کافر پر اس کے بد اعمال کی۔ پھر عمل اور جزاء میں فاصلہ کیا رہا ؟ ادھر انسان نے زندگی کا بوجھ اتارا ادھر جزا اور سزا کھڑی ہے۔
Top