Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : تم نہ داخل ہو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتًا : گھر (جمع) غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں کے سوا حَتّٰى : یہانتک کہ تَسْتَاْنِسُوْا : تم اجازت لے لو وَتُسَلِّمُوْا : اور تم سلام کرلو عَلٰٓي : پر۔ کو اَهْلِهَا : ان کے رہنے والے ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر ہے لَّكُمْ : تمہارے لیے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اے ایمان والو، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو اور گھر والوں کو سالم نہ کرلو۔ یہی تمہارے لئے موجب خیر و برکت ہے تاکہ تمہیں یاد دہانی حاصل رہے
آگے کا مضمون ……آیات 34-27 اب آگے ان رخنوں کو بند کیا یہ جو معاشرے میں بدنگاہی، تہمت اور اخلاقی مفاسد کو راہ دیتے ہیں اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس آزادی پر چند قیدیں عائد کی ہیں جو زمانہ جاہلیت کی سوسائٹی میں دوسروں کے گھروں میں آنے جانے کے معاملہ میں، لوگوں کو حاصل تھی۔ پھر بویائوں اور ذی صلاحیت لونڈیوں اور غلاموں کے ناح کی ہایت فرمائی ہے تاکہ شریروں کو سوسائٹی میں رخنہ اندازی کی کوئی راہ نہ ملے۔ اسی ذیل میں غلاموں کی آزادی کے لئے مکاتبت کی ایک کشادہ راہ کھول دی اور اس آزادی کے حصول کے لئے لوگوں کو ان کی امداد پر ابھارا تاکہ غلام آزادوں کی صف میں آئیں، ان کا اخلاقی معیار اونچا ہو اور معاشرے میں ایمان کی اساس پر کامل ہم آہنگی و یک رنگی پیدا ہو … اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ گھروں کے اندر داخل ہونے کے لئے طلب اذن کی ہدایت استیناس کے معنی معتارف و مانوس ہوجانے کیی ہیں اور بیوت سے مراد، جیسا کہ آگے والی آیت میں وضاحت آرہی ہے۔ رہائشی مکانات ہیں جن میں کسی کے بیوی بچے رہتے ہوں۔ فرمایا ہے اگر کسی مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے رہائشی مکان میں جانے کی ضرورت پیش آئے تو یوں ہی دراتا ہوا نہ گھس جائے بلکہ پہلے انس و تعارف حاصل کرے جس کا شائستہ اور بابرکت طریقہ یہ ہے کہ دروازے پر کھڑا ہو کر گھر والوں کو سلام کرے۔ اگر ادھر سے سلام کا جواب اور اجازت ملے تو گھر میں داخل ہو ورنہ واپس ہوجائے۔ سلام اپنے آپ کو متعارف کرانے اور طلب اذن کا نہایت پاکیزہ طریقہ ہے۔ آیت میں تسابوا کے بعد وتسلمواطریقہ تعارف کی وضاحت کے لئے ہے۔ ظاہر ہے کہ جب دروازے پر کوئی سلام کرے گا تو گھر والے معلوم کر ہی لیں گے کہ کون صاحب ہیں ؟ کیا چاہتے ہیں اور گھر کے اندر ان کا داخل ہونا مناسب ہے یا نہیں اور اس وقت ان کا آنا مناسب ہے یا کسی اور وقت ؟ اذان کے لئے سلام کا طریقہ گھروں کے اندر داخل ہونے کے لئے طلب اذن کا کوئی نہ کوئی طریقہ تو تمام مہذب قوموں میں ہمیشہ سے رہا ہے۔ عرب جاہلیت کے شرفاء میں بھی اس کا رواج تھا بلکہ ان کے ہاں اس کے لئے جو الفاظ تھے وہ تقریباً بالکل ان الفاظ کے ہم معنی ہیں جو اس وقت مغربی یا مغرب زدہ سوسائٹی میں رائج ہیں لیکن اسلام نے ان کو اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی جگہ پر سلام کی ہدایت فرمائی اور نبی ﷺ نے اس سلام کا طریقہ یہ بتایا کہ دروازے پر کھڑ ہو کر سلام کرے، اگر کوئی جواب مل جائے فیہا اور اگر جواب نہ ملے تو تین بار تک سلام کر کے واپس لوٹ آئے۔ اس پابندی کے بعد ظاہر ہے کہ اس اندیشے کے امکانات کا سدباب ہوگیا کہ کوئی غیر مطلوب شخص کسی نامناسب وقت میں کسی کے زنانہ مکان کے اندر گھس آئے۔ اس کے بعد صرف وہی لوگ گھروں کے اندر آسکتے تھے جو صاحب خانہ سے یا تو کوئی قرابت رکھتے ہیں یا صاحب خانہ کو ان پر پورا پورا اعتماد ہو۔ اس طریقہ کی برکتیں ذلکم خیرلکم لعلکم تذکرون یہ اس پابندی کی برکت واضحہ فرمائی ہے تاکہ طبائع پر یہ زیادہ شاق نہ ہو فرمایا کہ یہ تمہارے لئے موجب خیر و برکت ہے تاکہ تمہیں یاد دہانی حاصل ہوجایا کرے گویا اس کی نعیت دروازے پر ایک مبارک نوٹس کی ہے کہ گھر میں داخل ہونے والے کو بھی یاد دہانی ہوجائے کہ وہ دوسرے کے حرم میں قدم رکھ رہا ہے جہاں اس کو کچھ خاص اخلاقی آداب کا لحاظ رکھنا ہے اور گھر والوں کو بھی آگاہی ہوجائے کہ ان کے اندر اس وقت ایک ایسا شخص موجود ہے جس کے معاملے میں ان کے اوپر کچھ حدود وقیوم ہیں جن کا احترام دنیا اور آخرت دونوں میں موجب خیر و برکت ہے۔
Top