Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 32
وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِكُمْ١ؕ اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَاَنْكِحُوا
: اور تم نکاح کرو
الْاَيَامٰى
: بیوی عورتیں
مِنْكُمْ
: اپنے میں سے (اپنی)
وَالصّٰلِحِيْنَ
: اور نیک
مِنْ
: سے
عِبَادِكُمْ
: اپنے غلام
وَاِمَآئِكُمْ
: اور اپنی کنیزیں
اِنْ يَّكُوْنُوْا
: اگر وہ ہوں
فُقَرَآءَ
: تنگدست (جمع)
يُغْنِهِمُ
: انہیں غنی کردے گا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْ فَضْلِهٖ
: اپنے فضل سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
وَاسِعٌ
: وسعت والا
عَلِيْمٌ
: علم والا
اور اپنی رانڈوں اور رنڈوئوں اور ذی صلاحیت غلاموں اور لونڈیوں کے ناح کرو۔ اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ بڑی سمائی رکھنے والا اور علم والا ہے
32۔ 33 ایامی، ایم کی جمع ہے۔ ایم اس مرد لو بھی کہتے ہیں جو بیوی سے محروم ہوا اور اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو شہر سے محروم ہو۔ یعنی رانڈ اور رنڈوے دونوں کے لئے یہ لفظاستعمال ہوتا ہے بلکہ اپنے وسیع مفہوم میں یہ ان مردوں اور عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو بن بیا ہے رہ گئے ہوں۔ لفظ صلحین سے مراد لفظ صلحین یہاں جسمانی اور اخلاقی دونوں قسم کی صلاحیتیں رکھنے والوں کے لئیاستعمال ہوا ہے۔ عربی میں یہ لفظ اس جامع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ رانڈوں اور رنڈوئوں کے نکاح کی ہدایت معاشرے کے اندر اخلاقی مفاسد اور شیطان کی دراندازیوں کے لئے ایک وسیع دروازہ یہ چیز بھی کھولتی ہے کہ اس میں بہت سے مرد بیویوں سے محروم اور بہت سی عورتیں شوہروں سے محروم ہوں۔ اس سے ناجائز تعلقات کے امکانات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں اور تہمتوں کے پھیلانے کے لئے شریروں کو مواقع بھی ہاتھ آتے ہیں۔ اس برائی کے پیدا ہونے میں جس طرح بعض حالات میں غربت کو دخل ہے اسی طرح بعض حالات میں، بالخصوص عورتوں کے معاملہ میں، خاندانوں، برادریوں اور قبیلوں کے رسم و رواج کو بھی بڑا دخل ہے۔ بعض خاندانوں اور برادریوں میں عقد بیوگان کو معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی خرابیوں کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک معاشرے کے اندر ان کی اصلاح کا احساس نہ پیدا ہو۔ اس وجہ سے قرآن نے معاشرے کو ہدایت فرمائی کہ اپنے اندر کے رانڈوں اور رنڈوئوں اور بےنکاح مردوں اور عورتوں کے نکاح کرو۔ مطلب یہ ہے کہ اس چیز کے لئے لوگوں کے اندر احساس پیدا کر، اس کے مخالف رجحانات کی بیخ کنی کرو، جو لوگ غریب ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور اعانت کرو تاکہ وہ بھی معاشرے کے اندر اپنا جائز مقام حاصل کریں اور ان کے مجرد رہنے کے سبب سے جو نقصانات ان کو اور معاشرہ کو پہنچ سکتے ہیں ان کا سدباب ہو۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو اخلقای و جسمانی اعتبار سے ذی صلاحیت ہیں ان کے بھی نکاح کردو۔ ذی صلاحیت سے مراد وہ لونڈیاں اور غلام ہیں جو اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکتے اور اپنے حقوق و فرائض کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ہدایت بھی اس وجہ سے فرمائی گئی کہ اس طرح غلاموں کا اخلاقی و معاشرتی معیار اونچا ہوگا اور وہ بالتدریج معاشرہ کے صالح اجزاء بن جائیں گے۔ ذی صلاحیت لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کی ہدایت نکاح رزق و فضل میں اضافہ کرتا ہے ان یکونوا فقرآء یغنھم اللہ من فضلہ اوپر ہم نے اشارہ کیا ہے کہ مردوں کے لئے شادی سے محروم رہ جانے کی عام وجہ غربت ہوتی ہے۔ غریب آدمی اول تو کسی کنبہ کی ذمہ داری اٹھانے سے خود بھی گھبراتا ہے لیکن وہ نہ بھی گھبرائے تو کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے حبالہ عقد میں دینے پر کب راضی ہوتی ہے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ بشارت دی کہ جو لوگ غریب ہیں وہ بھی اطمینان رکھیں اور دوسرے بھی یہ اطمینان رکھیں کہ نکاح فقر میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ خدا کے رزق و فضل میں اضافہ کرتا ہے۔ جو آدمی اپنے ایمان و اخلاق کی حفاظت کے لئے نکاح کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہوتی ہے اور وہ اس کی دستگیری فرماتا ہے۔ آدمی جب تک بیوی سے محروم رہتا ہے وہ کچھ خانہ بندوش سا بنا رہتا ہے اور اس کی بہت سی صلاحیتیں سکڑی اور دبی ہوئی رہتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہتی ہے اس کی حیثیت بھی اس بیل کی ہوتی ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھولنے پھلنے سے محروم ہو۔ لیکن جب عورت کو شہر مل جاتا ہے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہوجاتی ہے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور زندگی کے میدان میں جب وہ دونوں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات بالکل بدل جاتے ہیں۔ واللہ واسع علیم یہ اسی بشارت کو موکد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا حوالہ دیا ہے کہ اللہ کے دامن کرم میں بڑی گنجائش ہے اور وہ سب کے حالات اور ضروریات سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ویستعفف الذین لایجدون نکاحاً حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمامنکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیراً والوھم من مال اللہ الذین اتیکم ط ولاتکرھوا افیتکم علی البغآء ان اردن تحصنا لبتغوا عرض الحیوہ الدنیا ط ولاتکرھو افتیتکم علی البغآء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدین ط ومن یکرھھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم ولیستعفف الذین لایحدون نکاحاً نکاح کی عدم مقدرت بدکاری کے جواز کے لئے عذر نہیں ہے اوپر والی ہدیات تو معاشرہ کے لئے تھی لیکن افراد کی اخلاقی ذمہ داری بہرحال بای رہے گی۔ اگر کوئی شخص نکاح کی مقدرت نہیں پا رہا ہے تو یہ چیز بدکاری کے جواز کے لئے کسی حال میں عذر نہیں بن سکتی۔ ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضبط میں رکھے اور خدا کے فضل و رحمت کا انتظار کرے۔ جو شخص اپنے ایمان و اخلاق کی حفاظت کے لئے یہ جہاد کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے راہ کھولے گا۔ آیت کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے۔ مکاتبت کا مفہوم اور اس کا حکم والذین یبتغون الکتب مما مملکت ایمانکم الآیۃ کتاب اور مکاتبت ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا سے اس بات کا خواہاں ہو کہ وہ فلاں مدت کے اندر اس کو اتنی رقم یا اس کی کوئی معین خدمت انجام دے دے گا یا اس کے کسی کام کی تکمیل کر دے گا، جس کے بعد آقا اس کو آزاد کر دے۔ ایسی صورت میں حکم ہے کہ اس غلام کو مکاتب بنا دیا جائے۔ عام علماء تو اس حکم کو مندوب و مستحب کے مفہوم میں لیتے ہیں لیکن حضرت عمر ابن سیرین اور دائود نے اس کو جوب کے مفہوم میں لیا ہے۔ ان کے نزدیک ایسے غلام کو مکاتب بنا دنیا مالک پر واجب ہے میرے نزدیک یہی مذہب قوی ہے یہ احکام جیسا کہ اوپر اشارہ گزرا معاشرہ کو دیے جا رہے ہیں اس وجہ سے اس صورت میں مالک کی حیثیت ایک خود مختار آقا کی باقی نہیں رہ جاتی ہے بلکہ ایک فریق کی بن جاتی ہے۔ اگر غلام اور آقا دونوں باہم دگر بطور خود معاملہ کرلیں تو بہتر ہے اور اگر ان کے درمیان کوئی نزاع واقع ہو تو اس کا فصلہ معاشرے کے ذمہ دار لوگ کردیں گے اور بدرجہ آخر اگر ضرورت داعی ہو تو معاملہ عدالت میں بھی جاسکتا ہے۔ مکاتبت کے لئے صلاحیت ان علمتم فیھم خیراً اس صورت میں صرف یہ چیز دیکھی جائے گی کہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے والے غلام کے اندر کارکردگی کی ایسی صلاحیت اور ذمہ داری کا ایسا احساس ہے یا نہیں کہ وہ مالک کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کو پورا کرسکے اس شرط کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ امکان اس بات کا بیہ تھا کہ کوئی نکھٹو غلام مالک سے آزاد حاصل کرنے کے لئے مکاتبت کا مطالبہ تو کر بیٹھے لیکن اس میں کوئی صلاحیت کارکردگی نہ ہو اور وہ اس چیز کو محض پبلک سے اعانت مانگنے اور گداگری کا پیشہ اختیار کرلینے کا ایک بہانہ بنا لے اور معاشرے پر ایک باربن کے رہ جائے۔ اس اندیشہ کی وج ہیہ تھی کہ کسی غلام کے مکاتب ہوجانے کے بعد اس کے باب میں قرآن نے لوگوں کو یہ ہدایت بھی، جیسا کہ آگے آرہی ہے۔ فرمائی ہے کہ لوگ اس کی دل کھول کر مدد کریں اور بیت المال سے بھی اس کی اعانت کی جائے تاکہ وہ مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ اس چیز کی طمع بہت سے ایسے غلاموں کے اندر بھی مکاتب بننے کا اران پیدا کرسکتی تھی جو خود تو ہاتھ پائوں مارنے کی صلاحیت رکھنے والے نہ ہوتے لیکن مالک کی خدمت سے آزاد ہو کر معاشرے پر ایک بار بن جاتے اور اگر معاہدے کی شرائط پوری نہ کر پاتے تو لازماً ایک نزاع و اختلاف کا ذریعہ بنتے۔ لیکن یہ امر محلوظ رہے کہ یہ شرط کسی ذی صلاحیت غلام کی آزادی میں مانع نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے کہ اس بات میں بھی، بصورت نزاع، آخری فیصلہ معاشرے اور قاضی کے اختیار میں تھا۔ اگر کسی غلام کو یہ شکایت ہوتی کہ اس کا مالک اس شرط کو بہانہ بنا کر اس کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنا چاتہا ہے درآنحالیکہ وہ مکاتب بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے تو وہ اپنا معاملہ معاشرہ کے ذمہ داروں اور پنچوں کے سامنے بھی پیش کرسکتا تھا اور بدرجہ آخر عدالت میں بھی لے جاسکتا تھا۔ مکاتب کی مدد انفاق فی سبیل اللہ ہے واتوھم من مال اللہ الذی اتکم یہ معاشرے کو ابھارا ہے کہ جو غلام اپنی آزادی کے لئے کمرہمت باندھیں تو اپنے اس مال میں سے جو خدا نے تمہیں دے رکھا ہے، پورے حوصلہ سے، ان کی مدد کرو۔ یہ ترغیب مال داروں کو دی ہے اور من مال اللہ الذی اتکم کے الفاظ ان کے اندر جذبہ شکر ابھارنے کے لئے ہیں کہ جو چیز خدا کی دی ہوئی ہے اس کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو۔ اس سے یہ بات بھی نکلی کہ جو لوگ اس مقصد کے لئے انفاق کریں گے ان کا یہ انفاق فی سبیل اللہ ہوگا۔ اموال زکوۃ سے مکاتب کی مدد مکاتبت کا حق یہ امر محلوظ رہے کہ سلف اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے غلاموں کی امداد زکوۃ اور بیت المال سے بھی کی جائے۔ بیت المال میں غلاموں کی آزادی کے لئے اسلام نے ایک مستقل مدد رکھی ہے جس کی وضاحت سورة توبہ میں ہوچکی ہے۔ مکاتبت کا یہ حق اسلام نے جس طرح غلاموں کو دیا اسی طرح لونڈیوں کو بھی دیا۔ مما ملکت ایمانکم کے الفاظ کی عمودیت بھی اس پر دلیل ہے اور نبی ﷺ اور صحابہ کا عمل بھی۔ روایات میں حضرت بریرہ اور حضرت جویریہ کے واقعات موجود ہیں۔ اس قانون کے نازل ہوجانے کے بعد تمام ذی صلاحیت غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی نہایت وسیع راہ کھل گئی۔ اس کے بعد صرف وہی غلام بای رہے جو یا تو اپنی حالت پر قانع اور مطمئن تھے یا انکے اندر ہاتھ پائوں مارنے اور معاشرے کے اندر خود اپنی جگہ پیدا کرنے کی صلاحتل نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسے غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کا اعلان عام کردیا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ اپنے مالکوں کی سرپرستی سے بھی محروم ہوجاتے اور خود بھی اپنی کفالت کا انتظام نہ کر پاتے جس کے سبب سے وہ معاشرے پر ایک بار بن کے رہ جاتے۔ ولاتکرھوا فتیتکم علی البغآء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا الآیۃ فتیات، یہاں لونڈیوں کے لئے استعمال کیا ہے اور مقصود اس لفظ کے استعمال سے معاشرے کے اندر ان کی عزت کو بڑھانا ہے۔ قتاۃ فتی کی مئونث ہے جس طرح فتی کے معنی جو ان اور لڑکے ہیں اسی طرح فتاۃ کے معنی لڑکی اور چھوکری کے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی اپنے غلام کو عبد اور اپنی لونڈی کو امۃ نہ کہے بلکہ فتی (جوان) اور فتاۃ (لڑکی) کہے۔ ظاہر ہے کہ لونڈیوں اور غلاموں کے لئے الفاظ کی یہ تبدیلی بھی انہی اصلاحات کا ایک جزو ہے جو ان کے معاشرتی درجے کو اونچا کرنے کے لئے ظہور میں آئیں اور اوپر مذکور ہوئیں۔ مقصود اس لفظ کی تبدیلی سے غلاموں اور لونڈیوں کے اندر احساس خود داری کو بیدار کرنا اور لوگوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا تھا کہ اب لوگ غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق اپنے قدیم تصورات کو بدلیں اور ان کو اپنے معاشرے کے بھائی بہن کی نگاہ سے دیکھیں۔ ان ردن تحقناً کی قید یہاں بطور شرط کے نہیں بلکہ صورت واقعہ کی تعبیر کے لئے ہے۔ جب اسلام نے زنا پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا، غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کی ہدایت فرمائی اور مکاتبت کے ذریعہ سے لونڈیوں اور غلاموں کی آزادی کی ایک نہایت کشادہ راہ کھول دی تو قدرتی طور پر لونڈیوں کے اندر بھی ایک عام احساس بیذار ہوا کہ وہ اپنے اخلاقی معیاد کو اونچا کریں اور ان میں سے جو اپنے مالکوں کے دبائو کی وجہ سے پیشہ کراتی تھیں، وہ خواہشمند ہوئیں کہ یہ حرام پیشہ چھوڑ کر پاکدامنی کی زندگی بسر کریں اور اگر کوئی شکل پیدا ہو تو کسی کے قید نکاح میں ہو کر زندگی گزاریں۔ اصلاحات کے اس دور میں اس رجحان کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا لیکن ان کی زد ان مالکوں کے مفاد پر پڑتی تھی جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں نکلے قائم کر رکھے تھے اور جو اپنی لونڈیوں سے پیشہ کراتے اور ان کی آمدنی سیفائدہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض اسالم کے دور میں بھی، جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کرچکے ہیں۔ خفیہ طور پر چکلے قائم کئے ہوئے تھے۔ مشہور افق عبداللہ بن ابی نے بھی جس نیفقہ افک برپا کیا، ایک چکلہ قائم کر رکھا تھا۔ تاریخوں میں اس کا موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے خبیث لوگ آسانی سے اس بات پر راضی نہیں ہو سکتے تھے کہ یہ لونڈیاں ان کے چنگل سے نکل جائیں۔ چناچہ وہ اپنے تمام ہتھکنڈے ان کو پداکدامنی کی زندگی بسر کرنے سے روکنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ انہی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، بانداز تنبیہ، فرمایا کہ اب ان لڑکیوں کو جب کہ وہ پاک دامنی کی زندگی اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اکراہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ ان کو تو معاف کر دے گا البتہ وہ لوگ اپنا انجام سوچ لیں جو ان کی عفت کے ساتھ یہ گھنونا کھیل کھیل رہے ہیں ! یہاں وہ بات یاد رکھیے جس کی طرف ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں کہ بعض چکلے والوں کو نبی ﷺ نے بعد کے مراحل میں رجم بھی کرا دیا۔
Top