Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ : ان گھروں میں اَذِنَ : حکم دیا اللّٰهُ : اللہ اَنْ تُرْفَعَ : کہ بلند کیا جائے وَيُذْكَرَ : اور لیا جائے فِيْهَا : ان میں اسْمُهٗ : اس کا نام يُسَبِّحُ : تسبیح کرتے ہیں لَهٗ : اس کی فِيْهَا : ان میں بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
یہ طاق ایسے گھروں میں ہیں جن کی نسبت خدا نے امر فرمایا کہ وہ تعمیر کئے جائیں اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں ایسے لوگ صبح و شام خدا کی تسبیح کرتے ہیں
آیات 38-36 فی بیوت کا کلام میں محل تمثیل میں معاہد کے ذکر کی وجہ فی بیوت الآیۃ فی بیوت کا تعلق میرے نزدیک مشکوۃ سے ہے۔ اس ظرف نے واضح کردیا کہ اس تمثیل میں بت خانوں اور مے خانوں کے طاق کی مثال پیش نہیں کی گئی ہے بلکہ اللہ کے معابد کے طاقوں کی مثال پیش کی گی ہے۔ تمثیل میں ظاہر ہے کہ مشکوۃ سے مراد قلب سلیم یا بالفاظ دیگر قلب مومن ہے۔ یہ قلب ہر قالب میں نہیں پایا جاتا بلکہ خاص خاص قالیوں ہی میں پایا جاتا ہے اور یہ قولب ہر جگہ نہیں ملتے بلکہ انکے ملنے کی اصل جگہ خدا کی مساجد اور اس کے معاہد میں زمحشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ ان کے نزدیک اصل تالیف کلام یوں ہے۔ ”فی بیت من بیوت اذن اللہ ان توفع …الایۃ“ تمثیل میں اشارہ مساجد کی طاقوں کی طرف سے اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ رفع یہاں بنانے اور تعمیر کرنے کے معنی میں ہے۔ مثلاً واذمرنع ابراہیم القواعد من العبیت (البقرہ 127) (اور یاد کرو جب کہ ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی تعمیر کر رہے تھے اور ذکر یہاں نماز اور ذکر و دعوت کی ان تمام شکلوں پر حاوی ہے جو اللہ کی یاد اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے اختیار کی جائیں۔ اذن اللہ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گھر خدا کے حکم سے تعمیر ہوئے۔ کہ ان میں اس کا کلمہ بلند کیا جائے۔ اگرچہ یہاں الفاظ عام ہیں لیکن ان کے اولین مصداق وہ معابد ہیں جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہوئے مثلاً بیت اللہ جس کی تعمیر کا حکم اللہ تعالیٰ نے حضرات ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو دیا یا بیت المقدس جس کی تعمیر حضرت سلیمان ؑ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے فرمائی۔ پھر وہ معابد بھی انہی کے حکم میں داخل ہوں گے جو ان کی شاخوں کی حیثیت سے تعمیر ہوئے۔ رہے وہ معابلہ جو مشرکوں نے اذن الٰہی کے بالکل خلاف اپنے اصنام و ادثان کی پرستش کے لئے قائم کئے وہ اس حکم سے خارج ہیں۔ ان کی حیثیت نجاست خانوں کی ہے۔ ان کے طاق اس تمثیل میں مردا نہیں ہے۔ یستج لہ فیھا بالغدو والاصال رجال لاتلھھم تجارۃ ولابیع عن ذکر اللہ ووایام الصلوۃ ویتآء الزکوۃ یخافون یوماً تتقلب فیہ اقلوب و الابصار موثر کے بعد اثر کا بیان اوپر کی آیات میں ایمان کی تصویر و تمثیل ہے۔ جب بات مساجد کے ذکر تک پہنچ گئی تو وہیں سے حاملین ایمان کے ذکر کے لئے نہایت موزوں تقریب پیدا ہوگئی تاکہ واضح ہوجائے کہ اس ایمان کے جو لوگ حامل ہوتے ہیں ان کی زندگی کیا ہوتی ہے۔ یہ مئوثر کی وضاحت کے بعد گویا اثر کا بیان ہوا تاکہ حقیقت عیلی زندگی میں مصور ہو کر سامنے آجائے۔ فرمایا کہ جن مساجد و معابلہ کے طاقوں کی یہاں تمثیل پیش کی گئی ان میں صبح و شام اللہ کے ایسے بندے اس کی تسبیح کرتے ہیں جن کو تجارت اور بیع خدا کی یاد، نماز کے اہتمام اور زکوۃ سے غافل نہیں کرتے اس لئے کہ وہ ایک ایسے دن کی آمد سے ہر وقت اندیشہ ناک رہتے ہیں جس میں دل اور آنکھوں سب پر حالت اضطراب طاری ہوگی۔ عدو اصال کا مفہوم عدواصال عربی میں اس مفہوم میں بولے جاتے ہیں جس مفہوم میں ہم اپنی زبان میں صبح و شام کے الفاظ بولتے ہیں دجال سے مراد لفظ دجال سے ان لوگوں کی غایت درجہ تعریف واضح ہو رہی ہے۔ یعنی یہ وہ مردان خدا ہیں کہ انہیں اس دنیا کی کوئی چیز بھی خدا سے غافل نہیں کرتی۔ انہیں ہر چیز سے زیادہ خدا کی رضا مطلوب ہے۔ بلدۃ اور بیع کا مفہوم تجارۃ اور بیع میں سے پہلا لفظ تو عام تجارتی کاروبار کے مفہوم میں ہے اور بیع بیچنے کے معنی میں مشہور یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ اگر کسی چیز کے بیچنے کا موقع ہو تو تاجر اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ تجارت تو درکنار اس طرح کے مواقع طمع بھی ان کو خدا سے غافل نہیں کرتے اور مومن کی اصل شان یہی ہے کہ وہ تجارت اور بیع و شرا سب کچھ کرے لیکن خدا کی یاد اور اس کے فرائض کی بجا آوری سے غافل نہ ہو۔ نماز اور زکوۃ نماز اور زکوۃ کا ذکر دین کے دو بنیادی فرائض کی حیثیت سے آیا ہے۔ انہی کے تحت درحقیقت پورا دین ہے۔ اس کی وضاحت ہم دوسرے مقام پر کرچکے ہیں۔ تقلب قلوب و ابصار کا مفہوم تتقلب فیہ القلوب والابصار قیامت کے ہول کی تصویر ہے۔ یعنی اس دن ان لوگوں کو کسی کل چین نہیں پڑے گا جنہوں نے زندگی اس دن سے غفلت میں گزاری۔ ان کے دل اڑے جا رہے ہوں گے اور ان کی یہ بدحواسی ان کی نگاہوں سے ظاہر ہوگی۔ آیات 38 ل ثمرہ فعل کے اظہار کے لئے یہ ل لام علت نہیں ہے بلکہ یہ وہ لام ہے جو کسی فعل کے انجام، نتیجہ اور ثمرہ کے باین کے لئے آتا ہے۔ مثلاً فالتقطہ ال فرعون لیکون لھم عدواً وحزناً (قصص :8) (اور فرعون کے گھر والوں نے اس کو اٹھا لیا کہ وہ ان کے لئے دشمن اور غم بنے) امرا لقیس کا ایک مشہور شعر ہے۔ وما ذوق عیناک الالتضربی بھیک فی اعشار قلب مقتل اس میں بھی غور کیجیے لضربی پر ل نتیجہ فعل ہی کے بیان کے لئے ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ آخرت کے اندیشہ سے اس دنیا میں، اللہ کی رضا جئوی کے لئے کر رہے ہیں اس کا صلہ ان کو ان کے اعمال سے کہیں بہتر ملے گا اور پھر مزید براء اللہ کو اپنے فضل سے نوازے گا اور اللہ جن کو اپنے فضل سے نوازتا ہے ان کو بےحساب بخشتا ہے۔ بےحساب یعنی جس کا ان کو سان گمان بھی نہیں ہوگا۔
Top