Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 33
وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ١۫ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
وَلَمَّآ : اور جب اَنْ : کہ جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : پریشان ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالُوْا : اور وہ بولے لَا تَخَفْ : ڈرو نہیں تم وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھاؤ اِنَّا مُنَجُّوْكَ : بیشک ہم بچانے والے ہیں تجھے وَاَهْلَكَ : اور تیرے گھر والے اِلَّا : سوا امْرَاَتَكَ : تیری بیوی كَانَتْ : وہ ہے مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
اور جب یوں ہوا کہ آئے ہمارے فرستادے لوط کے پاس تو وہ ان سے آرزدہ اور دل تنگ ہوا اور وہ بولے کہ تم نے کوئی اندیشہ کرو، نہ غم، ہم تم کو اور تمہارے متعلقین کو بچالیں گے بجز تمہاری بیوی کے، وہ پیچے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔
ولما ان جاءت رسلنا لوط سی بھم وضاق بھم زدعا وقالوا لا تخف ولا تحزن قف انا منجوب والھلک الا امراتک کا نت من الغبرین (33) یہاں زبان کا ایک نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے جس کی طرف علامہ ابن قیم ؒ نے اشارہ فرمایا ہے کہ جب لما اور اس کے بعد کے فعل کے درمیان ان آجائے تو اس صورت میں شرط اور اس کے جواب کے درمیان سبب اور مسبب کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ مطب یہ ہے کہ جب فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس سے ہو کر حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے تو وہ ان کو دیکھ کر آزردہ اور متردد ہوئے۔ یہاں یہ سوال قابل غور ہے کہ حضرت لوط ؑ فرشتوں کی دیکھ کر آزردہ و دل گرفتہ کیوں ہوئے ؟ انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح ان کا خیر مقدم کیوں نہیں کیا ؟ قرآن مجید کے دوسرے مقامات کے مطالعہ سے ان کی اس آزروگی و پریشانی کے دوسبب معلوم ہوتے ہیں۔ جو الگ الگ دو مختلف مرحلوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تو وہ ان کو دیکھ کر اس وجہ سے پریشان ہوئے کہ یہ فرشتے خوبرو نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے۔ ان کا اس شکل و صورت میں آنا قوم لوط کے لئے ایک آخرت ابتلا تھا تاکہ ان کے اندر جو خبث بھرا ہوا ہے وہ پوری طرح ظاہر ہوجائے اور جو عذاب ان کے لئے مقدر ہوچکا ہے اس کے وہ آخری درجے میں مستحق بن جائیں۔ حضرت لوط ؑ پر یہ حقیقت چونکہ ابھی واضح نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے وہ اپنے دروازے پر چند خوبرو شریف زادوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئے کہ آج کا دن تو بہت کٹھن ہے۔ بستی کے گنڈوں کو جب ان نوجوانوں کی خبر ہوتی تو وہ ٹوٹ پڑیں گے اور مجھ کو اور میرے مہمانوں کو رسوا کریں گے۔ چناچہ ان کا یہ اندیشہ بالکل صحیح ثابت ہوا۔ گنڈے ان نوجوانوں کی خبر پاتے ہی حضرت لوط ؑ کے گھر پر ٹوٹ پڑے اور ان کو رسوا کرنا چاہا۔ حضرت لوط ؑ نے لاکھ منت سماجت کی لیکن انہوں نے ان کی ایک نہیں سنی۔ بالآخر فرشتوں نے اپنا پردہ اٹھایا اور حضرت لوط ؑ کو اطمینان دلایا کہ تم اطمینان رکھو، ہم چھو کرے نہیں ہیں، جیسا کہ ان اندھوں نے گمان کیا ہے، بلکہ ہم خدا کے فرشتے ہیں اور ان کے لئے فیصلہ کن عذاب لے کر آئے ہیں۔ فرشتوں کے اس انکشاف راز سے حضرت لوط ؑ کو یہ تو اطمینان ہوا کہ گنڈون کے شر سے وہ اور ان کے مہمان محفوظ ہیں لیکن عذاب کی خبر بھی ان کے لئے سخت تردد کا باعث ہوئی کہ اب دیکھئے ان کے اور ان کے متعلقین کے لئے حکم ہوتا ہے ! فرشتون نے اس پہلو سے بھی ان کو اطمینان دلایا کہ تم اپنے اور اپنے متعلقین کے باپ میں کوئی اندیشہ نہ کرو، ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو اس آفت سے نجات دیں گے۔ البتہ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ یہاں سے نہیں نکلے گی۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ مبتلائے عذاب ہوگی۔ یہاں حضرت لوط ؑ کی بیوی کے انجام کی طرف دو مربتہ اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے مقصود اس حقیقت کو موکد کرنا ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ دین کے معاملہ میں کوئی کسی دوسرے کے بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ عورت ہو یا مرد ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے۔ حضرت لوط ؑ کی بیوی ایک جلیل القدر پیغمبر کی بیوی تھی لیکن چونکہ وہ خود ناہنجار تھی اس وجہ سے وہ بھی عذاب میں گرفتار ہوئی اور حضرت لوط ؑ سے جو نسبت اس کو حاصل تھی وہ اس کے لئے کچھ نافع نہ بن سکی۔
Top