Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 44
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
اللہ نے آسمانوں اور میں کو مقصد حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے ایمان والوں کے لئے۔
ؒ خلق اللہ السموات والارض بالحق ط ان فی ذلک لایۃ للمومنین (44) یعنی آسمانوں اور زمین کے نظام پر جو شخص بھی غور کرے گا اس پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ دنیا نہ تو کسی خالق کے بغیر وجود میں آگئی ہے اور نہ یہ مختلف دیوتائوں کی کوئی بازی گاہ یا رزم گاہ ہے بلکہ یہ ایک علم و حکیم اور عزیز و مقتدر خالق نے ایک مقصد حق کے ساتھ اس کو وجود بخشا ہے اور یہ اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہے کہ ایک دن آئے گا جب یہ مقصد حق سب کے سامنے آجائے گا۔ اس دن اس کے خالق کا کامل عدل ظاہر ہوگا اور باطل باطل نابود ہوجائے گا۔ جو لوگ اس دنیا کو ایک بازی گاہ سمجھ کر زندگی بطالت میں گزار رہے ہیں وہ اپنی اس بےفکری کے انجام سے دو چارہوں گے اور جو لوگ آنکھیں کھول کر زندگی بسر کریں گے وہ خالق کی ابدی خوشنودی کے حق دار ٹھہریں گے۔ ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا فی خلقت ھذا باطلاج الایۃ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ ان فی ذلک لایۃ للمومنین ‘۔ ’ ایۃ ‘ کی تنکیر تضخیم شان کے لئے ہے ‘ یعنی اس میں اہل ایمان کے لئے بہٹ بڑی نشانی ہے۔ اس نشانی کے مختلف پہلو مختلف مقامات میں واضح کیے جاچکے ہیں، اس وجہ سے یہاں ہم صرف اجمالی اشارات پر اکتفا کریں گے۔ اس میں سب سے بڑی نشانی تو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ایک روز جزاء و سزا کے ظہور کی ہے۔ یہ دنیا اپنے وجود سے شہدت دے رہی ہے کہ اس کا خالق حکیم ہے، اس وجہ سے لازم ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں اس کا کامل عدل و حق ظاہر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دینا محض کسی کھلنڈرے کا ایک کھیل ہے اور یہ بات اس عظیم خالق کی شان کے بالکل منافی ہے جس کی قدرت، حکمت اور رحمت اس دنیا کے ہر گوشے سے نمایاں ہے۔ دوسری نشانی اس میں اس بات کی ہے کہ اس دنیا میں انجام کے اعتبار سے کامیاب زندگی وہی ہے جو آخرت کو نصب العین بنا کر گزاری جائے اس لئے کہ ابدی کامیابی اور ابدی ناکامی کا فیصلہ وہیں ہونا ہے۔ یہ دنیا آخرت کے بغیر ناتمام ہے۔ اس کی تکمیل آخرت میں ہوگی جب کہ اس کی پیدائش کا اصلی مقصد ظہور میں آئے گا۔ یہ چیز اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر چیز کے خیر و شر کا فیصلہ اس کے اخروی نتائج کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔ ہر سکتا ہے بلکہ ہمیشہ ہوا ہے کہا حق کی راہ میں اہل حق کو نہایت زہرہ گداز مصائب سے سابقہ پیش آیا ہے لیکن ان مصائب سے گھبرا کر حق سے انحراف جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ مصائب اپنے نتائج کے لحاظ سے نہایت خوش آئند ہیں۔ تیسری نشانی اس میں اس بات کی ہے کہ شرک و شفاعت کا نظریہ بالکل باطل ہے اس لئے کہ یہ نظریہ اس کائنات کے ’ بالحق ‘ ہونے کی بالکل نفی کردیتا ہے۔ اگر اس کائنات میں ایسے شر کاء و شفعاء کا وجود مان لیا جائے جو اپنے زور یا اثر سے کسی حق کو باطل یا باطل کو حق بنا سکتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ کائنات بالحق نہیں ہے بلکہ ایک اندھیر نگری ہے۔ اس ٹکڑے کی مزید وضاحت آگے سورة روم کی آیت 8 کے تحت آئے گی۔ یہاں ان اشارات پر اکتفا فرمائے۔
Top