Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
ارشاد ہوا کہ جنت میں داخل ہوجائو۔ اس نے کہا کاش ! میری قوم جانتی
قیل ادخل جسۃ قل یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی اجع لمنی من السکرمین (26۔۔۔) مذکورہ اعلان کے بعد ظاہر ہے کہ ان کی پوری قوم ان کی دشمن بن کر ان کے خلاف سازشوں میں لگ گئی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو سازشوں کے شر سے محفوظ رکھا اور احمایتِ حق کی راہ میں انہوں نے یہ بازی جو کھیلی اس کے صلہ میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی جس پر انہوں نے اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش میری قوم بھی اس بات کی قدروقیمت جانتی جس کے صلہ میں مجھے یہ مغفرت اور سرفرازی حاصل ہوئی۔ یہاں اس بات کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ بشارت ان کو کس موقع پر دی گئی ہے۔ کلام کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے تین امکان سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے اس اعلان کے بعد قوم کے اشرار نے ان کو شہید کردیا اور اس وقت ان کو یہ بشارت دی گئی ہو۔ دوسرا یہ کہ اس کے بعد انہوں نے قوم کے رویہ سے مایوس ہو کر ہجرت فرمائی ہو اور اس وقت ان کو یہ بشارت ملی ہو۔ تیسرا یہ کہ اس کے بعد چونکہ ان کا مشن پورا ہوچکا تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس بشارت کے ساتھ ان کو وفات دی ہو۔ ان میں سے پہلا امکان کلام کے سیاق وسباق کی روشنی میں اگرچہ زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے لیکن سورة مومن کے حوالے سے اوپر ہم نے ان کی جو تقریر نقل کی ہے اس کے آخر میں یہ تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قوم کی سازشوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ ان کے وداعی کلمات کے بعد ان کی حفاظت کا ذکر یوں ہوا ہے : فستذکرون ما اقول لکم وافومن امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعبادہ وقہ اللہ مسیات ما مکروا وحاق بال فرعون سواء العذاب۔ (المومن : 44۔ 45) (اے میری قوم کے لوگو !) میں جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں اس کو تم عنقریب یاد کرو گے۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو دیکھنے والا ہے۔ پس اللہ نے اس کو ان سازشوں کی آفات سے محفوظ رکھا جو لوگوں نے اس کے خلاف کیں اور آلِ فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ اس آیت کی روشنی میں یہ امکان تو خارج از بحث ہوجاتا ہے کہ ان کو قتل کیا گیا ہو البتہ مذکورہ بالا دو امکان باقی رہ جاتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دو میں سے کون سی صورت پیش آئی۔ اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ بس اتنی بات یقینی ہے کہ حق کی حمایت میں جو جاں بازی انہوں نے دکھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا انعامل ان کو یہ ملا کہ اسی دنیا میں ’ مبشر بالجنۃ ‘ قرار پائے۔
Top