Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 52
قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا١ؐٚۘ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ
قَالُوْا : وہ کہیں گے يٰوَيْلَنَا : اے وائے ہم پر مَنْۢ بَعَثَنَا : کس نے اٹھا دیا ہمیں مِنْ : سے مَّرْقَدِنَا ۆ : ہماری قبریں ھٰذَا : یہ مَا وَعَدَ : جو وعدہ کیا الرَّحْمٰنُ : رحمن۔ اللہ وَصَدَقَ : اور سچ کہا تھا الْمُرْسَلُوْنَ : رسولوں
وہ کہیں گے، ہائے ہماری بدبختی ! ہم کو ہماری قبر سے کس نے اٹھا کھڑا کیا ! یہ تو وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں کی بات سچی نکلی !
آیت 52 یعنی یہ مذاق اڑانے والے لوگ اس وقت گبھراہٹ اور سراسیمگی میں اپنے سر پیٹیں گے اور کہیں گے کہ یہ کس نے ہم کو ہماری قبروں سے اٹھا کھڑا کیا ! یہ سوال تحقیق کے لئے نہیں بلکہ اپنی بدبختی کے اظہار کے لئے وہ کریں گے کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد اٹھنا نہیں ہوگا لیکن یہ تو واقعہ ثابت ہوا ! ’ ھذا ما وعد الرحمن وصدق المرسلون۔ ‘ یہ ان کے قول کا حصہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تو وہی بات ہوئی جس کی خدائے رحمان کی طررف سے ہم کو آگاہی دی گئی تھی، رسولوں کی بات بالکل سچی نکلی۔ اور اس کا بھی امکان ہے کہ یہ بات فرشتوں کی زبانی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت ان کی تذلیل کے لئے فرمائی جائے کہ اب اپنی بدبختی پر سو پٹیو، یہ وہی چیز تمہارے سامنے آئی ہے جس سے خدائے رحمان نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے تم کو آگاہ کردیا تھا لیکن تم نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔ میرا رحجان اس دوسری بات کی طرف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے نظائر سے واضح تائید اسی کی نکلتی ہے۔ سورة صافات میں ہے۔ فانما ھی زجرۃ واحدۃ فاذا ھم ینظرون وقالوا یولینا ھذا یوم الدین ھذا یوم الفصل الذی کنتم بہ تکذبوان (15۔ 21) بس وہ ایک ڈانٹ ہی ہوگی کہ دفعتہ وہ اٹھ کے کا گنے لگیں گے اور کہیں گے۔ ہائے ہماری بدبختی ! یہ تو جزاء و سزا کا دن آگیا۔ یہی وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ اس میں آخری فقرہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو بالکل بروقت ان کی تفضیح کے لئے کہلایا جائے گا۔
Top