Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 59
وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ
وَامْتَازُوا : اور الگ ہوجاؤ تم الْيَوْمَ : آج اَيُّهَا : اے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرمو (جمع)
اور اے مجرمو ! آج الگ ہوجائو۔
بریں مژدہ گرجاں فشانم رواست ! آیت 59۔ 62 اہل جنت کا حال بیان کرنے کے بعد اب یہ مجرموں کا حشر بیان ہو رہا ہے۔ ان کو حکم ہوگا کہ اے مجرمو ! دنیا میں تو تم میرے باایمان بندوں کے ساتھ ملے رہے ا لئے کہ دنیا دار لا امتحان تھی لیکن اب جزائے اعمال کا دن آگیا۔ اس وجہ سے اب تم میرے باایمان بندوں سے الگ ہو جائو اور اپنے اعمال کی سزا بھگتو۔ اب تمہاری دنیا الگ اور ان کی دنیا الگ ہے۔ ’ الم اعھد الیکم یبی ادم الایۃ۔ ’ عھد ‘ کا صلہ جب ’ الی ‘ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ضامن اور ذمہ دار بنانے کے ہوتے ہیں۔ مثلاً وعھدنا الی ابراھیم واسمعیل ان طھرابیتی للطائفین (البقرۃ : 125) (اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو اس بات کا ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا) یہ مجرموں کو اس وقت بطور ملامت یاددہانی کی جائے گی کہ آدم کے بیٹو ! کیا میں نے تم کو اس عہد کا پابند نہیں کیا تھا کہ شیطان کی بندگی نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے بلکہ صرف میری ہی بندگی کرنا۔ یہ نہایت سیدھی راہ ہے جس پر چلنے والے مجھ تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن تم ایسے بدقسمت نکلے کہ اس نے تمہارے اندر سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کرڈالا، کیا تم اتنی عقل وتمیز نہیں رکھتے تھے کہ اپنے دوست اور دشمن میں امتیاز کرسکتے اور اس بات کی یاد رکھئے کہ اس نے اپنے فریب سے تمہارے باپ آدم ؑ کو جنت سے نکلوایا اور اولاد آدم کے ساتھ اس کی دشمنی قیامت تک کے لئے ہے۔ شیطان کی دشمنی، شیطان کے چیلنج، اولادِ آدم کو اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی اور اس سلسلہ کے دوسرے امور جن کی طرف یہاں اشارہ ہے پچھلی سورتوں، خاص طور پر بقرہ اور اعراف میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔ ان اجمالات کو ان کی روشنی میں سمجھے۔
Top