Tadabbur-e-Quran - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اس کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا تو وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا !
آیت 77۔ 78 ’ انسان ‘ سے مراد قریش ہی ہیں جن سے یہاں بحث ہے۔ بےالتفاقی کے اظہار کے لئے لفظ عام استعمال فرمایا ہے۔ ’ ضرب مثل ‘ کوئی مثال بیان کرنے یا حکمت کی بات کہنے کے لئے بھی آتا ہے اور موقع ہو تو کسی پر طنز یا پھبتی چست کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں یہ اس دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ کلام اپنے ماسبق سے دو پہلوئوں سے ربط رکھتا ہے۔ اوپر کی آیت میں آنحضرت ﷺ کو جو تسلی دی گئی ہے اس سے بھی اس کا تعلق ہے اور اس سے اوپر کی آیات میں قریش کو خدا کی ربوبیت کے جو مقتضیات بتائے گئے ہیں اس سے بھی اس کا ربط ہے۔ تسلی کے مضمون سے اس کا ربط یوں ہے کہ پیغمبر ﷺ کو بتایا گیا ہے کہ جو سر پھرے لوگ خدا پر بھی پھبتی چست کر رہے ہیں اور اپنی پیدائش کو بھول کر بڑے طنطنہ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ بوسیدہ ہڈیوں میں کون زندگی پیدا کرسکتا ہے وہ اگر پیغمبر پر طنز کریں اور اس کو شاعر و مجنون قرار دیں تو ان سے کیا بعید ہے۔ ربوبیت کے مضمون سے اس کا تعلق یوں ہے کہ ربوبیت جس طرح شکر اور توحید کو مقتضی ہے اسی طرح ایک روز حساب و کتاب کو بھی مقتضی ہے (اس مضمون کی وضاھت اس کے محل میں ہوچکی ہے) لیکن انسان کی بلاوت کا ٰیہ حال ہے کہ وہ خدا کی نعمتوں سے متمتع ہونے کے باوجود یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ کوئی روزِ حساب و کتاب بھی آنے والا ہے جس دن اس سے ان نعمتوں کی بابت پر سش ہونی ہے اور اور اگر اس کو اس کی یاددہانی کی جاتی ہے تو وہ ایک حریف بن کر سامنے آتا ہے اور اپنی پہلی خلقت کو بالکل بھول کر طنز یہ انداز میں سوال کرتا ہے کہ بھلا بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے ! فرمایا کہ ان کو بتا دو کہ ان کو ہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا۔ اگر پہلی بار ان کو پیدا کرنے میں اس کو کوئی زحمت نہیں پیش آئی تو دوبارہ اس کو پیدا کرنے میں کیوں زحمت پیش آئے گی ! ’ وشئی خلقہ ‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ احمقانہ سوال وہی کرسکتا ہے جس کو اپنی پہلی خلقت یاد نہ رہی ہو۔ جس کو اپنی پہلی خلقت یاد ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس مٹی سے وجود میں لایا ہے تو وہ یہ سوال نہیں کرسکتا اگر کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کا حریف بن کر اس سے لڑنے اٹھا ہے۔
Top