Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 165
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
رُسُلًا : رسول (جمع) مُّبَشِّرِيْنَ : خوشخبری سنانے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈرانے والے لِئَلَّا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ حُجَّةٌ : حجت بَعْدَ الرُّسُلِ : رسولوں کے بعد وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
اللہ نے رسولوں کو خوشخبری دینے والے اور ہوشیار کرنے والے بنا کر بھیجا تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اللہ غالب اور حکیم ہے
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا۔ رُسُلًا، فعل محذوف سے منصوب بھی ہوسکتا ہے اور بدل بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں ہی شکلوں میں معنی کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں ہوگا۔ انبیاء کا مشترک مشن : اس آیت میں رسولوں کا مشترک مشن بھی بتا دیا اور وہ ضرورت بھی جو ان کے بھیجنے کی داعی ہوئی۔ ان کا مشترک مشن لوگوں کو بشارت دینا اور خطرے سے آگاہ کرنا ہے۔ بشارت اس بات کی کہ جو لوگ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے ان کے لیے ابدی زندگی کی خوشیاں اور کامرانیاں ہیں۔ آگاہی اس بات کی کہ جو لوگ کفر اور بدعملی کی راہ اختیار کریں گے ان کے لیے دائمی عذاب نار ہے۔ انبیاء کی بعثت کی ضرورت : اس کی ضرورت یہ بتائی کہ لوگوں پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے۔ یہ کہنے کا موقع کسی کے لیے باقی نہ رہے کہ ان کے پاس اس خطرے سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیں آیا ورنہ وہ ہرگز کفر و بدعملی کی راہ نہ اختیار کرتے۔ اگرچہ خدا عزیز ہے وہ انبیاء کے بھیجے بغیر بھی لوگوں کو ان کی نافرمانیوں پر سزا دیتا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں تھا لیکن وہ حکیم بھی ہے، اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ کسی کو سزا دے تو اتمامِ حجت کے بعد ہی دے۔ یہ حجت رسولوں کے آنے کے بعد پوری ہوگئی۔ عقل و فطرت کی جو شہادت ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور نیکی اور عدل سے محبت، ظلم و گناہ سے نفرت کی انسان کے اندر ودیعت تھی وہ ان انبیاء نے پوری طرح آشکارا کردی۔ ان کے جو تقاضے ہوسکتے تھے وہ بھی پوری تفصیل سے بیان کردیے۔ اب اگر کوئی ٹھوکر کھاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دونوں آنکھیں رکھتے ہوئے پورے دن کی روشنی میں ٹھوکر کھاتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی فطرت خیر و شر کے شعور سے محروم نہیں ہے اور نہ عقل حق و باطل میں امتیاز سے قاصر ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اور اس کو خیر و شر کی معرفت بخشی ہے لیکن اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ عقل و فطرت کی رہنمائی کے ساتھ وحی اور انبیاء کی رہنمائی سے بھی اس کو نوازے تاکہ عقل و فطرت کے تقاضے اس کے سامنے بالکل مبرہن ہو کر آجائیں اور گمراہی کے لیے ادنی عذر بھی باقی نہ رہ جائے۔
Top