Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
پر اللہ گواہی دیتا ہے اس چیز کی جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اس نے اس کو اپنے علم کے ساتھ نازل کیا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کو تو اللہ ہی کافی ہے
166۔ 169:۔ لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَشْهَدُوْنَ ۭوَكَفٰي بِاللّٰهِ شَهِيْدًا۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۔ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيْقًا۔ اِلَّا طَرِيْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭوَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا۔ استدراک کا پہلو : حرف " لکن " استدراک کے لیے آتا ہے۔ یہ استدراک اس بات پر ہے جو اوپر والے ٹکڑے سے نکلتی ہے۔ اوپر انبیا کے سلسلے اور ان کی طرف وحی بھیجے جانے کا تفصیل کے ساتھ جو حوالہ دیا ہے اس سے مقصود، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اہل کتاب کے مکذبین پر یہ واضح کرنا تھا کہ جو حقیقت ایسی جانی پہچانی ہوئی ہے، جس کو پرکھنے اور جانچنے کے لیے اتنے معیارات اور اتنی کسوٹیاں موجود ہیں، اگر یہ اس کو جھٹلاتے ہیں تو بس ان کی شامت ہی آئی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اس پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں اللہ تو اس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اس نے تمہاری طرف اتاری ہے، یعنی اس بات کی گواہی کہ یہ من جانب اللہ ہے، اس میں نفس اور شیطان کو کوئی دخل نہیں ہے، اللہ نے اس کو اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے، اس میں کسی وسوسہ نفسانی یا کسی دغدغۂ شیطانی کی کوئی آمیزش نہیں ہے، اس کا تعلق علم الٰہی کے پاک سرچشمہ سے ہے اور یہ آب حیات کی طرح بالکل خالص اور بےآمیز ہے۔ مزید فرمایا کہ اس کے حق میں گواہی تو اللہ ہی کی کافی ہے لیکن اللہ کے ساتھ فرشتے بھی اس کے گواہ ہیں۔ یہ کلام پیغمبر کی تسلی کے لیے ہے : یہ ارشاد، جیسا کہ واضح ہے، پیغمبر ﷺ کی تسلی کے لیے ہے کہ یہ مخالفین تمہاری وحی کو وحی نہیں مانتے تو نہ مانیں، اس کی صحت و صداقت ان کے ماننے نہ ماننے پر منحصر نہیں ہے۔ تمہارے اطمینان کے لیے یہ بس ہے کہ خدا اور فرشتے اس کے گواہ ہیں۔ تم جس بزم قدس سے وابستہ ہو تمہارے لیے سند ان کی سند ہے نہ کہ ان محروم القسمت لوگوں کی جو گہر میں امتیاز سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ تو حق سے دور ہوتے ہوتے اتنے دور ہوچکے ہیں کہ اب ان کے لیے راہ حق کی طرف مڑنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کفر اور اپنی جانوں پر خود اپنے ہاتھوں ظلم سے اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا ہے کہ خدا ان کی مغفرت فرمائے یا جہنم کے راستے کے سوا کوئی اور راہ ان کو دکھائے۔ اب یہ جہنم ہی میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اور خدا کے لیے یہ معاملہ بہت آسان ہے۔ اس نے ان پر حجت تمام کردی، اب یہ چیز ذرا بھی اس پر شاق نہیں گزرے گی کہ یہ جہنم میں پڑیں اور اس میں ہمیشہ رہی۔ كَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا کے ٹکڑے پر ہم دوسری جگہ بھی بحث کرچکے ہیں۔ نبی کی صداقت کی ایک باطنی دلیل : یہ کلام اگرچہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، تسلی کے محل میں ہے لیکن یہ وحی کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے جس کا تعلق پیغمبر کی ذات سے ہے۔ اوپر وحی کی صداقت کی جو دلیل بیان ہوئی ہے اس کی نوعیت تاریخی شہادت کی ہے۔ یعنی انبیاء کی تاریخ اور ان کی وحی کی کسوٹی پر جانچ کر قرآن اور پیغمبر کا درجہ متعین کیا گیا ہے۔ اب یہ ایک دوسری دلیل بیان ہوئی ہے جس کی نوعیت ایک باطنی دلیل کی ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ پیغمبر اپنے باطن میں خدا اور فرشتوں کی شہادت اس طرح سنتا سمجھتا اور پرکھتا ہے کہ اس کے لیے اپنی وحی کی صداقت پر کسی شب ہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس طرح کی شہادت کسی غیر نبی کو حاصل نہیں ہوتی اس وجہ سے کسی غیر نبی کے الہام اور نبی کی وحی میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص اپنی جس کیفیت کو الہام سمجھ رہا ہے وہ محض ایک وسوسۂ نفسانی یا شیطانی ہو لیکن پیغمبر پر وحی جس افق سے آتی ہے، جس زور و قوت کے ساتھ آتی ہے اور اللہ اور ملائکہ کی جس تائید و شہادت کے ساتھ آتی ہے وہ بجائے خود ایک ایسی برہان ہوتی ہے جس کے بعد کسی شب ہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ وحی کی صداقت کا یہی پہلو ہے جس کی وجہ سے ساری خدائی بھی نبی کی تکذیب کرے تب بھی اس کے اعتماد میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا۔ اس کی بزم و انجمن اس کے باطن کے اندر ہوتی ہے جہاں اس کو خدا اور روح القدس کی معیت حاصل ہوتی ہے۔ اس مسئلے پر مزید بحث انشاء اللہ ہم سورة تحریم میں کریں گے۔
Top