Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 174
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! قَدْ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آچکی بُرْهَانٌ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف نُوْرًا : روشنی مُّبِيْنًا : واضح
اے لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک حجت آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک نور مبین اتار دیا
174۔ 175:۔ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا۔ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَاعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَـيُدْخِلُهُمْ فِيْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ ۙ وَّيَهْدِيْهِمْ اِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَــقِيْمًا۔ " برہان " اور " نور مبین " سے مراد : " برہان " اور " نور مبین " سے مراد قرآن مجید ہے۔ " برہان " کے لفظ سے اس کے عقلی و استدلالی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک حجت قاطع ہے، اس کے اندر ہر شبہ، ہر اعتراض اور ہر سوال کا مسکت اور تشفی بخش جواب موجود ہے بشرطیکہ آدمی اس پر کھلے دل سے غور کرے۔ " نور مبین " سے اس کے عملی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں حق و باطل کو واضح کرکے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ " ہدایت " سے مراد مطلوب و مقصود کی ہدایت : وَّيَهْدِيْهِمْ اِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَــقِيْمًا، میں ہدایت کا لفظ میرے نزدیک اس ہدایت کے لیے ہے جو اہل ایمان کو آخرت میں حاصل ہوگی۔ قرآن میں یہ لفظ اس مفہوم میں متعدد مقامات میں استعمال ہوا ہے۔ بقرہ میں ہدایت کے مختلف مدارج پر بحث گزر چکی ہے۔ آخرت کی ہدایت مقصود و مطلوب کی طرف ہدایت ہے۔ یہ بات کہ اس ہدایت کا تعلق آخرت سے ہے اس سے نکلتی ہے کہ اس کا عطف فسیدخلہم پر ہے جس کا تعلق صریحاً آخرت سے ہے اور یہ بات کہ یہ ہدایت مطلوب و مقصود کی طرف ہے، " الیہ " کے لفظ سے نکلتی ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ پر ایمان اور اس حبل اللہ کو، جو قرآن کی شکل میں ان کی طرف نازل ہوئی ہے، مضبوطی سے پکڑ لیں گے خدا ان کو اپنی رحمت اور فضل بےپایاں سے بھی نوازے گا اور براہ مستقیم اور براہ راست ان کی رہنمائی اپنے قرب کی طرف بھی فرمائے گا اور یہ آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہوگی اس لیے کہ تمام ہدایت و شریعت کی اصل غایت اور اہل ایمان کی تمام مساعی کا اصل مقصود و مطلوب یہی قرب الٰہی ہے۔ اس آیت کا خطاب عام ہے جس میں مسلمان، اہل کتاب اور اہل عرب سب آگئے ہیں۔
Top